نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
حدیث میں بھی نظر آئے ، میں نے سمجھا کسی مدرسے کے سفیر ہوں گے، ملاقات کرنے کی ضرورت نہ انھوں نے محسوس کی اور نہ میں نے! عصر کی نماز کے بعد صاحب دعوت گاڑی لے کر آئے کہ چلئے ، میں گاڑی میں بیٹھنے لگا تو وہ بزرگ صورت بھی بے تکلفی سے بیٹھ گئے ، میں نے سمجھاکہ ان کی بھی دعوت ہوگی ، افطار ساتھ میں ہوا ، اس وقت تک یہ صاحب خاموش رہے، مغرب کی نماز کے بعد کھانے پر بیٹھے ، کھاکر فارغ ہوئے تو یہ صاحب کھڑے ہوگئے اور خطبۂ مسنونہ کے چند کلمات پڑھے ، میرے کان کھڑے ہوئے کہ یہ صاحب تقریر کریں گے ، خیر انھوں نے خطبہ ناتمام پڑھنے کے بعد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے : ولمن خاف ربی جنتی ، میں چونکا ، مگر انھوں نے اس کے بعد اس سے زیادہ چونکادینے والا ترجمہ کیا ، ترجمہ یہ تھا کہ ’’ جس نے کھانا کھلایا اس کے لئے جنت ہے ‘‘ میں نے سر پیٹ لیا ، خیریت یہ ہوئی کہ انھوں نے اپنی تقریر اتنے پر روک دی ، میں نے صاحب دعوت سے پوچھا کہ آپ ان کو دعوت دے کر لائے ہیں؟ انھوں نے کہا نہیں ، میں تو انھیں جانتا بھی نہیں ، میں سمجھا کہ آپ کے تعلق والے ہیں ، جو اتنی بے تکلفی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں سوچنے لگا کہ اسی طرح کی الٹی پلٹی باتیں کرکے یہ صاحب اور اس طرح کے لوگ شکار پھنساتے ہوں گے ، اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرکے کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہوں گے۔ بزرگوں کا مقولہ ہے کہ :نعم الامیر علیٰ باب الفقیر ،فقیرکے دروازے پر اگر امیر جائے تو وہ بہتر امیر ہے ، کیونکہ یہ اس کے تواضع اور انکسار نفس کی دلیل ہے۔ اور :بئس الفقیر علیٰ باب الامیر ،اور اگر امیر کے دروازے پر فقیر جائے تو وہ برا فقیر ہے ، کیونکہ اس کا امیر کے دروازے پر جانا حریص ہونے یا کسی غرض دنیوی حاصل کرنے اور تملق وخوشامد کی دلیل ہے ، جو طبیعت کا سخت رذیلہ ہے ۔ ہاں جب امیر فقیر کے دروازے پر آگیا تو اس کے ساتھ تواضع اور اکرام کے ساتھ معاملہ کرنا ضروری ہے ، کیونکہ اخلاق عالیہ اسلام میں بے حد ضروری ہے۔ میسور میں یہ مقولہ میرے پیش نظررہا کرتاتھا ، کئی اصحاب ثروت ایسے تھے جو دینی مسائل ومعلومات کے لئے بے تکلف حاضر ہواکرتے تھے ، ان سے محبت ہوگئی تھی ، وہ اگر کبھی دعوت دیتے