نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
میں تازگی اور افکار ونظریات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے،اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عہد صحابہ کا کوئی بچھڑا ہوا کوئی قافلہ اس دور میں آگیا ہو۔ علماء دیوبند کے ایمان افروز وروح پرور واقعات ان کے حالات وسوانح پر لکھی گئی کتابوں میں جابجا موجود ہیں ۔ حضرت الاستاذ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ جنھیں بزرگان دین ، اولیاء کرام اور علمائے سلف کے واقعات سے خصوصی شغف تھا ،اس حد تک کہ ان کے بے تکلف دوست انھیں ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ کہہ دیتے تھے ۔حضرت مولانا علیہ الرحمہ کا حال یہ تھا کہ خانوادۂ شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ، اکابر دیوبند ،سلف صالحین اور اولیاء اﷲسے انھیں جو بے پناہ عقیدت ومحبت تھی اس سے سرشار ہوکرآپ ان کی داستان دلنواز سناتے رہتے ۔تقریر میں ، تدریس میں اور نجی مجلسوں میںجہاں کہیں ان بزرگان دین کا ذکر خیر آجاتاپھر آپ کی کیفیت دیدنی ہوتی ، گھنٹوں ایک کیف کے ساتھ ان کے واقعات سناتے رہتے ،یہ واقعات تربیت واصلاح کیلئے بہت مفید ثابت ہوتے تھے، سننے والے جب مجلس سے اٹھتے تو ان کا دل ایمان ویقین سے لبریز اور ان اہل اﷲ کی محبت وعقیدت سے معمور ہوتاتھا،اور وہ ایک جذبۂ عمل کو لیکر اٹھتے تھے، نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں ان مجالس اور ان واقعات کی برکت سے بدل گئیں ، اور سنت وشریعت کے نور سے منور ہوگئیں۔ ان واقعات کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر ایک زمانہ میںحضرت مولاناؒنے بڑی کاوش اور دیدہ ریزی کے ساتھ اکابر دیوبند کے واقعات کومختلف عناوین کے تحت جمع کرنا شروع کیا ،جیسے’’ ذوق عبادت وذکر‘‘ ’’ حب نبوی ‘‘’’اتباع سنت ‘‘ ’’علماء کا مقام ‘‘’’شفقت وخیر خواہی ‘‘ ’’صبر ورضا ‘‘اور ’’ضبط وتحمل ‘‘ وغیرہ ۔ آپ کا ارادہ تو یہ تھا کہ علماء دیوبند کی سوانح سے تمام واقعات کو ایک خاص انداز سے جمع کردیا جائے ، چنانچہ آپ نے مدرسہ دینیہ غازی پور کے زمانۂ قیام میں اس کو جمع کرنا شروع کیا ، تقریباً دوسوصفحات لکھے جاچکے تھے ، اسی دوران مئو کا وہ تاریخی فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں ۱۶؍دن تک لگاتار کرفیو لگا رہا ، اس میں پولیس اور پی اے سی کے ذریعہ مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی انتہا کردی گئی ، حضرت مولانا فرماتے تھے کہ مئو کے فساد کا طبیعت پر یہ اثر ہوا کہ جیسے دل ودماغ منجمد ہوگیا ہو ، اور ترتیب واقعات کا یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ، پھر بعد میں چاہا کہ اسے