روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ہوشیار رہنا چاہیے اور پہلی نظر کی معافی کا صحیح مطلب ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ حضرت خواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ نے خوب اِس نکتے کو سمجھا ہے جو اِس معاشرے کے لیے مشعلِ راہ ہے ؎ دین کا دیکھ ہے خطر اُٹھنے نہ پائے ہاں نظر کوئے بُتاں میں تو اگر جائے تو سَر جھکائے جا ۲۱)اپنی بیوی اگر حسین نہ ہو تو یہ سوچے کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی برکت سے جنّت میں یہ ایسی حسین ہوجاوے گی کہ حوریں بھی اس کے حُسن پر رشک کریں گی، چند دن صبر کرنا ہے۔ دُنیا کی زندگی کے صبح و شام تیزی سے گزرتے چلے جا رہے ہیں عن قریب جنّت کی حوروں سے ملاقات ہونے والی ہے جن کا نقشہ تک قرآنِ پاک میں مولائے کریم نے بھیج دیا ہے۔ کیا شانِ رحمت ہے! بندوں کی جذباتی تسلی کی کیا رعایت ہے۔ جیسے شفیق باپ اپنے اُس بیٹے کو جو امریکا میں پڑھ رہا ہو خط لکھ دے: دیکھنا! وہاں کی کافرہ بے ہودہ عورت سے نہ شادی کرنا۔ چند دن صبر سے پڑھ لو یہاں شریف خاندان کی نہایت خوبصورت لڑکی اور خوب سیرت لڑکی سے تمہاری ہم نے منگنی کردی ہے اور اُس کے یہ یہ اوصاف ہیں۔ پس مومن کو سوچنا چاہیے کہ ایمان اور اچھے اعمال سے حوروں سے منگنی ہورہی ہے۔ اور کبھی کبھی مسجد کی صفائی کردے تاکہ حوروں کا مہر بھی ادا ہوجاوے جیسا کہ حدیث کی روایت ہے۔ فقیر مؤلف کی یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنی چٹنی روٹی حلال کی بہتر ہے دوسرے کی حرام بریانی سے ۔جو خدائے تعالیٰ نے جوڑا مقدر کردیا پردیس میں اُس کو بھی غنیمت سمجھے۔ جیسے اسٹیشن کی چائے خراب بھی چل جاتی ہے اِسی طرح دُنیا کی چند روزہ حیات کے لیےجھونپڑی اور ہرطرح کی بیوی سے بھی کام چل جاتا ہے بشرطیکہ ہوس عقل و دماغ نہ خراب کردے۔ اور پردیس میں وطن اصلی کا خواب نہ دیکھے۔ آخرت کی نعمت دائمی ہے یہاں جس کے پاس جو کچھ ہے عارضی ہے۔ حق تعالیٰ حاکم بھی ہیں حکیم بھی ہیں۔ جس کے لیے جو مناسب ہوتا ہے وہی عطا فرماتے ہیں۔