روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
نامِ او چو بر زبانم می رود ہر بُنِ مُو از عسل جوئے شود اﷲ اﷲیہ نامِ پاک کس قدر شیریں ہے کہ اس نامِ پاک کو زبان سے لیتے ہی دودھ شکر کی طرح ہماری جان شیریں ہوجاتی ہے یعنی جس طرح دودھ میں شکر گھل کر تمام دودھ کو میٹھا کردیتی ہے اِسی طرح ذکر اسمِ ذات اﷲ اﷲ کی شیرینی نے ہماری جان کو شیریں کردیا۔ جب اﷲ پاک کا نام میری زبان سے نکلتا ہے تو میرے ہر بُن مو (بال بال) شہد کے دریا ہوجاتے ہیں۔ مولانا روم رحمۃ اﷲ علیہ دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ اے دل!یہ چاند زیادہ حسین ہے یا کہ وہ جو قمر ساز یعنی چاند کا بنانے والا ہے۔ وہ سرچشمہ حُسن اور مرکز حُسن اور وہ آفتابِ حُسن وجمال اپنے فضل سے کسی چہرے پر اور اس کی آنکھوں پر ایک شعاع ڈال دیتا ہے تو انسان اُسے دیکھ کر پاگل ہونے لگتا ہے اور اُس کی آنکھوں میں سینکڑوں تیر و کمان نظر آنے لگتے ہیں۔ احقر کا شعر ہے ؎ چوں بہ عکس حُسن تو از ہوش رفتہ می شوم پس چہ باشد چوں ترا بے پردہ بینم روزِ حشر اور جب وہ شعاع ہٹا لیتے ہیں تو پھر وہی چہرہ اور اُسی آنکھ کو دیکھ کر (زوالِ حُسن کے بعد) دل متنفر ہوجاتا ہے پس عکس سے عشق کرنا خسارہ اور دھوکا ہے کہ عکس بھی بعد زوالِ حُسن یا بعد موت چھن گیا اور اصل سے بھی محروم رہے۔ جس طرح چاند کا عکس دریا میں نظر آوے اور کوئی نادانی سے دریا میں چاند تلاش کرنے کے لیے دریا میں گھس جاوے تو نہ عکس ملے گا اور نہ اصل۔پس عکس سے رخ کا پھیرنا اصل کو حاصل کرنے کے لیے عقلاً بھی واجب اور ضروری ہے۔ پس اس مثال سے دُنیا کے حسینوں کے حُسن و جمال کو قیاس کرلیجیے کہ اُن سے نگاہ کی حفاظت کا حکم ہماری ہی مصلحت سے اور اپنے قرب کو اور اپنے دیدار کے لیے فرمایا ہے۔ ورنہ ہم ان مرنے والوں پر فدا ہوکر بے قیمت ہوجاتے ہیں ؎