روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ہے ہرگز قابلِ قدر نہیں کیوں کہ یہ کیفیت ہے عمل نہیں۔ اور کیفیت موجبِ قرب نہیں بلکہ عمل باعثِ قرب ہے۔ ۶)فرمایاکہ طاعات کے ساتھ تقاضائے معصیت موجبِ قرب ہے اور معصیت کے ساتھ عدمِ تقاضا موجبِ قرب نہیں ہوسکتا بلکہ اِرتکاب سے پہلے جو اس تقاضے کی وہ مخالفت کرتا تھا یہ مقاومت (مقابلہ) اور مجاہدے کی ایک فرد تھی جو موجبِ قرب ہے۔ ۷) فرمایاکہ درحقیقت یہ شیطان کا ایک دھوکا ہے کہ گناہ کرلینے سے تقاضا کم ہوجائے گا۔ کیوں کہ ارتکابِ معصیت سے فی الحال کچھ دیر کو تقاضا کم ہوجائے گا مگر اس کا اثر یہ ہوگا کہ آیندہ مادّۂ معصیت قوی ہوجاوے گا اور اِزالۂ قدرت سے باہر ہوجائے گا(یعنی گناہ کرنے سے وقتی سکون ہوگا لیکن کچھ دیر بعد پہلے سے بھی شدید تقاضا ہوگا اور باربار گناہ سے یہ تقاضا روز بروز اتنا بڑھتا جاوے گا کہ گناہ چھوڑنا مشکل ہوجاوے گا) ۔ ۸) فرمایاکہ گناہوں کی آگ خدائی آگ ہے جس کی خاصیت یہ ہے نَارُ اللہِ الۡمُوۡقَدَۃُ ۙ﴿۶﴾الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ ؎یہ اللہ کی آگ ہے روشن کی ہوئی کہ دلوں تک اپنا اثر داخل کردے گی۔ اس کا اصل محل قلب ہے۔ اور دعویٰ سے کہا جاسکتا ہے کہ گناہ گار کا دل بے چین رہتا ہے۔ اس کو راحت وچین نصیب نہیں ہوتا۔ گناہ سے دل ضعیف اور کمزور ہوجاتا ہے جس کا تجربہ نزولِ حوادث کے وقت(یعنی مصیبتوں کے نزول میں) ہوتا ہے کہ متقی اُس وقت مستقل مزاج ہوتا ہے اور گناہ گار حواس باختہ ہوجاتا ہے۔ احقر عرض کرتا ہے گناہ گار کو نہ موت آتی ہے نہ حیات سُکھ کی پاتا ہے لَایَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَایَحۡیٰی؎ کی زندگی جو دوزخیوں کی ہوتی ہے وہی دنیا ہی میں اس کی ہوجاتی ہے۔ اعمالِ دوزخ سے زندگی کا دوزخی کے مثل بننا اور اعمالِ جنّت سے دنیا ہی میں زندگی کا پُرسکون ہونا یعنی مثل جنّتی کے ہونا عقلاً اور تجربتًا مُسلّم ہے۔ حضرت پرتاب گڑھی فرماتے ہیں ؎ ------------------------------