روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جواب: فِیْ نُوْرِ الْاَنْوَارِ بَحْثُ حَمْلِ الْمُطْلَقِ عَلَی الْمُقَیَّدِ فِیْ حُکْمٍ وَّاحِدٍ مَا نَصُّہٗ وَ فِیْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ وَرَدَ نَصَّانِ فِی السَّبَبِ وَلَا مُزَاحَمَۃَ فِی الْاَسْبَابِ، فَوَجَبَ الْجَمْعُ بَیْنَہُمَا یَعْنِیْ اِنَّمَا قُلْنَا اِنَّہٗ یُحْمَلُ الْمُطْلَقُ عَلَی الْمُقَیَّدِ فِی الْحَادِثَۃِ الْوَاحِدَۃِ وَالْحُکْمُ الْوَاحِدُ اِنَّمَا ہُوَ اِذَا وَرَدَا فِی الْحُکْمِ لِلتَّضَادِّ وَاَمَّا اِذَا وَرَدَ فِی الْاَسْبَابِ وَالشُّرُوْطِ فَلَا مُضَایَقَۃَ وَلَا تَضَادَّ فَیُمْکِنُ اَنْ یَّکُوْنَ الْمُطْلَقُ سَبَبًا بِاِطْلَاقِہٖ وَالْمُقَیَّدُ سَبَبًا بِتَقْیِیْدِہٖ اور مَا نَحْنُ فِیْہِ میں حکم معصیت ہے اور مطلق جر اور جر لِلْخُیَلَاءاسباب اس کے ہیں۔ یہاں مطلق مقید پر محمول کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پس مطلقِ جر کو بھی حرام کہیں گے اور جر للخیلاء کو بھی۔ البتہ دونوں حرمتوں میں اگر کسی قدر تفاوت مانا جائے تو گنجایش ہے، کیوں کہ ایک جگہ ایک منہی عنہ کا ارتکاب ہے یعنی جر کا اور دوسری جگہ دو منہی عنہ کا ارتکاب ہے یعنی جر کا اور خیلاء کا پس یہ کہنا کہ چوں کہ عرب کا دستور یہی تھا کہ فخراً ایسا کرتے تھے اس لیے حرمت اسی کی ہوگی بلا دلیل ہے۔ کیوں کہ خصوص مورد سے خصوص حکم لازم نہیں آتا جب کہ الفاظ میں عموم ہو وَیَتَفَرَّعُ عَلَیْہِ مِنَ الْاَحْکَامِ الْفِقْہِیَّۃِ۔ رہا قصّہ حضرت صدیقِ اکبررضی اﷲ عنہ کا میرے نزدیک اس حدیث کے معنیٰ یہ ہیں کہ اِنَّکَ لَسْتَ تَفْعَلُہٗ بِالْاِخْتِیَارِ وَالْقَصْدِ چناں چہ اِلَّا اَنْ اَتَعَاہَدَ اس کی دلیل ہے کہ بلا قصد ایسا ہوجاتا تھا اور اسی کا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا ہے۔ رہا للخیلاءکی قیدیہ اس بناء پر ہے کہ اکثر جو لوگ اس فعل کو اختیار کرتے ہیں وہ براہِ خیلاء کرتے ہیں۔ پس حدیث میں اطلاق بسبب (یعنی فعلہ بالخیلاء) کا مسبّب (یعنی فعل بالاختیار) پر ہوا ہے۔ وہو شایع فی الکلام ای شیوع، فقط۔ واللہ اعلم۔ (امداد الفتاویٰ ،جلد :۴ ،صفحہ :۱۲۱ تا ۱۲۲) أ أ أ أ