روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ظَاہِرُہٗ اَنَّ عَمْرَو الْمَذْکُوْرَ لَمْ یَقْصِدْ بِاِسْبَالِہِ الْخُیَلَاءَ وَقَدْ مَنَعَ مِنْ ذٰلِکَ لِکَوْنِہٖ مَظَنَّۃً ظاہر ہے کہ حضرت عمرو رضی اﷲ عنہ صحابی رسول ہیں۔ ان کا قصد اسبال ازار سے تکبّر کا نہیں ہوسکتا لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مظنّۂخیلاء سے بھی منع فرمادیایعنی اسی طرح کا لباس جو ٹخنے سے نیچے ہو اگر تکبر نہ بھی ہوتو متکبرین کی علامت ہونے سے موضعِ تہمت ہے، شریعت نے موضعِ تہمت سے بھی بچنے کا حکم فرمایا ہے۔ کَمَا ہُوَ مُصَرَّحٌ فِی الْحَدِیْثِ اِتَّقُوْا بِمَوَاضِعِ التُّہَمِ نیز شارح بخاری امام حافظ ابنِ حجر رحمۃاﷲ علیہ فیصلہ فرماتے ہیں:وَاَمَّا الْاِسْبَالُ لِغَیْرِ الْخُیَلَاءِ فَظَاہِرُ الْاَحَادِیْثِ تَحْرِیْمُہٗ اَیْضًا؎یعنی جو اسبال بدون تکبّر ہو وہ بھی ظاہرِ احادیث سے حرام ہے۔ امام بخاری رحمۃاﷲ علیہ نے بخاری شریف میں اسبالِ ازار سے متعلق یہ روایت نقل فرمائی ہے: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَارِ فِی النَّارِ ؎ جو حصّہ ٹخنے سے نیچے لباس سے چھپا ہوگا اتنا حصہ دوزخ کی آگ میں ہوگا۔ مَردوں کے لیے ٹخنے سے نیچے لباس لٹکانے سےممانعت کے وجوہات اور اسباب (از: فتح الباری شرح بخاری، ج: ۱۰،ص:۲۶۳) ۱)قَدْ یُتَّجَہُ الْمَنْعُ فِیْہِ مِنْ جِہَۃِ الْاِسْرَافِ فَیَنْتَہِیْ اِلَی التَّحْرِیْمِ۔ ایک وجہ ممانعت کی یہ ہے کہ اس میں اسراف ہے جس کی حد حرام تک پہنچتی ہے۔ کسی ------------------------------