روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جس شخص کے چہرے اور آنکھوں کی بناوٹ سے اور گفتگو سے نفس کو لذّت ملے اور میلان خفیف بھی محسوس ہو اُس سے فوراً ہٹ جانا چاہیے۔ جب کسی صورت سے شغف اور عشق میں ابتدا ہوتاہے تو اِس قہر و عذابِ الٰہی کو تمویہ کہتے ہیں اور شیطان اُس صورت کو حقیقت سے کئی گنا زیادہ کرکے اُس کو حسین دکھاتا ہے حتیٰ کہ اُس کی آنکھوں میں سو تیر و کمان نظر آتے ہیں لیکن جب گناہ کرلیتا ہے تو وہی حسین صورت مکروہ اور بدصورت اور ذلیل معلوم ہوتی ہے، یعنی گناہ سے قبل جو معیار حُسن کا اُس میں نظر آرہا تھا وہ باقی نہیں رہتا ہے اِس سے معلوم ہوا کہ وہ شیطان کی طرف سے تصرف اور شعاعِ انعکاسیہ شیطانیہ کا تجمل تھا ؎ صد کمان و تیر درجے ناو کے جب کسی صورت کے ساتھ شغف و ابتلا سے نجات حاصل ہوجاوے تو اِس کو تنبیہ کہتے ہیں ؎ گر نماید غیر ہم تمویہ اوست در رود غیر از نظر تنبیہ اوست جب غیر اﷲ کی محبت کا غلبہ ہو تو یہ امتحان ہے اور جب غیر سے نجات حاصل ہوجاوے اور غیر نظر سے جاتا رہے تو یہ حق تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے۔ حضرتِ اقدس تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ اِس شعر کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ جب انسان کو کسی صورت کی طرف میلان ہو جاتا ہے اور وہ صورت دل میں اُتر جاتی ہے تو وہ زبان سے اگرچہ لاحول اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر دَم کرتا ہے لیکن چوں کہ یہ عاشق دل کو اُس صورت کے حصول کی حدیث نفس سے خالی نہیں کرتا اورعزم و ہمت کے ساتھ خالی کرنا بھی نہیں چاہتا بس اِس کا وہ حال ہوتا ہے ؎ سبحہ بر کف توبہ بر لب دل پر از ذوق گناہ معصیت را خندہ می آید بر استغفار ما پس یہ عدم خلوص سبب ہوجاتا ہے عدم تاثیر استعاذہ کا (یعنی اخلاص کے ساتھ اُس صورت کو چھوڑنا نہیں چاہتا پس وظیفہ کا اثر اِس عدم اخلاص سے اُس پر نہیں ہوتا۔ ورنہ