روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
۱۰) عام طور پر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حق العبد میں محض بندے ہی کا حق ہوتا ہے، حق تعالیٰ کا حق نہیں ہوتا۔ یہ غلط ہے۔ بندے کا وہ حق اللہ تعالیٰ ہی نے مقرر فرمایا ہے مثلاً حکم دیا ہے کہ مظلوم کی امداد کرو، کسی مسلمان کی غیبت نہ کرو، کسی کو ایذا نہ دو تو جب ان احکام کے خلاف کسی کو ایذا دی جاوے گی تو جیسے بندے کا حق فوت کیا ایسے ہی خدا تعالیٰ کا بھی حق فوت کیا کہ اُن کے حکم کی مخالفت کی۔ اس لیے حقوق العبادتلف کرنے میں محض بندوں کی معافی کافی نہیں بلکہ حق تعالیٰ سے بھی توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔ گو عام حقوق العباد میں بندے کی معافی کے بعد حق تعالیٰ اکثر اپنا حق بھی معاف کردیتے ہیں مگر بعض اوقات محبوبانِ خاص کی حق تلفی میں ان کی معافی کے بعد بھی حق تعالیٰ اپنا حق معاف نہیں فرماتے بلکہ مؤاخذہ ضرور رہتا ہے۔ (ص:۳۳، م: ۸۰) ۱۱) فرمایاکہ اکثر رئیسوں کو حق تعالیٰ حوصلہ عطا فرمادیتے ہیں: خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے جناب خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ اسی طرح بزرگانِ کاملین دولتِ باطنی دینے میں سخی ہوتے ہوں گے مگر ان کو اس میں کیا اختیار ہے وہ تو حق تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ فرمایاکہ ان کے اختیار کی ضرورت نہیں، ان کے قلوب میں یہ برکت ہوتی ہے کہ جو ان کو راضی رکھتا ہے اور جس کی طرف ان کے قلوب متوجہ رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر فضل فرماہی دیتا ہے تجربہ یہی ہے۔ چناں چہ ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل رحمۃاﷲ علیہ اور ایک اور شخص نہر میں وضو کررہے تھے، امام صاحب نیچے کی طرف تھے اور وہ شخص اوپر کی طرف۔ اُس شخص نے خیال کیا کہ امام صاحب مقبول بندے ہیں میرا مستعمل پانی اُن کے پاس جاتا ہے یہ بے ادبی ہے اس لیے وہ اُٹھ کر دوسری طرف ان کے نیچے جابیٹھا، بعد انتقال کے اس کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا: مغفرت ہوئی یا نہیں؟ کہا کہ میرے پاس کوئی عمل نہ تھا، اس پر مغفرت ہوئی کہ تونے ہمارے مقبول بندے احمد بن حنبل کا ادب کیا تھا ہمیں یہ پسند آیا۔ اسی واسطے حدیث میں آیا ہے کہ اے عائشہ ! کسی نیک عمل کو حقیر نہ سمجھنا، ہر نیک