روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ہے مگر معدے کے مقابلے میں بڑا ہے۔ (ص:۵۸، م: ۲۴۹) ۴) فرمایاکہ مؤمن اپنے گناہوں سے ڈرتا ہے گو ادنیٰ ہی گناہ ہوں بخلاف فاجر کے کہ وہ گناہ کو مثل مکھی کے سمجھتا ہے کہ آئی اور اُڑادیا۔ تو معلوم ہوا کہ گناہ کو سخت سمجھ کر توبہ کرنا علامت ایمان کی ہے اور اس کو ہلکا سمجھنا علامت بے ایمانی کی ہے اور اوپر جو آیا ہے کہ گناہ کو بڑا نہ سمجھے اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنا بڑا نہ سمجھے کہ توبہ کی ضرورت نہ سمجھے۔ غرض اصل چیز توبہ ہے۔ جو اعتقاد توبہ سے مانع ہو وہ مذموم ہے خواہ بڑا ہونے کا اعتقاد ہو خواہ چھوٹا ہونے کا۔ (ص: ۵۸، م:۲۵۰) ۵)فرمایاکہ معصیت کا علاج قبل صدورِ ہمت اور بعدِ صدورِ توبہ ہے۔ سوائے اس کے اور کوئی علاج نہیں۔ (ص:۹۰،م: ۴۲۲) ۶) ایک صاحب نے لکھا کہ گناہِ کبیرہ کے بعد دل پر گھبراہٹ ہوجاتی ہے۔ کئی کئی روز تک طبیعت گھبراتی ہے اور خوب گڑگڑا کے استغفار کرنے سے دل پر شرمندگی چھاجاتی ہے اس کے لیے کیا کروں۔ فرمایا یہ شرمندگی اور خوف فی نفسہٖ بہت اچھی چیز ہے اور یہ بھی ایک قسم کی توبہ ہے۔ مگر کمال توبہ کا یہ ہے کہ زبان سے بھی تضرّع کے ساتھ ہو۔ پس اس رکاوٹ کا مقابلہتکلّف و ہمت سے کیا جاوے اور خواہ کتنی ہی تکلیف ہو مگر رکاوٹ پرعمل نہ کیا جاوے۔ (ص: ۲۴۸، م:۱۰۳۴) ۷) فرمایاکہ اصلاحِ اعمال وکثرتِ استغفار کو دفع طاعون میں بڑا دخل ہے۔ ۸) فرمایاکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی دُعا اور استغفار اُس وقت مفید ہوسکتی ہے کہ گناہ کرنے والا خود بھی توبہ کرنا چاہے۔ (ص:۱۱۳، م: ۵۲۲) ۹) اس کا تذکرہ ہونے لگا کہ رشوت سے توبہ کرے تو معاف کس طرح کرائے؟ فرمایا کہ ڈھونڈ ڈھونڈکر ادا کرے یا معاف کرائے، اگر پتا نہ چل سکے تو اشتہار چھپوائے کہ میرے ذمے جن کے حقوق ہوں لے لے یا چھوڑ دے ۔پھر فرمایا کہ بڑا مفتی قلب ہے، جب خوف ہوتا ہے تو سب تدبیریں ادائے حقوق کی سوجھنے لگتی ہیں۔ (ص:۱۹۹، م: ۸۱۲)