روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
خزاں کو، نہ راحت کو نہ مصیبت کو، نہ غم کو نہ خوشی کو، نہ مال و دولت کو نہ عہدہ ومنصب کو، نہ بیوی بچوں کو نہ دوست احباب کو ،یعنی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی کسی چیز کو یہاں قرار نہیں،سب آنکھیں چرانے والی ہیں،یہاں تک کہ خود انسان کی زندگی اور صحت اس سے بے مروتی اور بے وفائی کا ہر روز اعلان کرتی ہے، قرآنِ مجید نے دنیوی زندگی کی حیثیت کو بڑے دلنشین انداز میں سمجھایا ہے،ارشاد ہے: ’’خوب جان لوکہ دنیوی زندگی محض ایک کھیل کود اور ظاہری خوشنمائی اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال واولاد میں ایک دوسرے پر برتری جتلانا ہے، گویا کہ بارش ہے کہ اس کی پیداوار کاشتکاروں کو اچھی معلوم ہوتی ہے، پھر خشک ہوجاتی ہے، سو تو اسے زرد دیکھتا ہے، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں عذاب شدید بھی ہے، اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی اور دنیوی زندگی محضمَتَاعُ الْغُرُوْرِدھوکے کا سامان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس عارضی وفانی دنیا کے برعکس عالمِ آخرت باقی و لازوال ہے، اور وہاں کی کیفیتیں دو ہیں، دونوں ثابت وباقی، ایک کافروں کے لیے اور وہ عذابِ شدید ہے، دوسری ایمان والوں کے لیے اور وہ اللہ کی مغفرت ورحمت ہے، اب انسان کو اختیار ہے کہ ان دو میں سے جس کو چاہے اپنا مقصودِ اعظم بنالے۔ احقر کا شعر ہے ؎ یوں تو دنیا دیکھنے میں کس قدر خوش رنگ تھی قبر میں جاتے ہی دنیا کی حقیقت کھل گئی اس کے باوجود ہم لوگ اس پر جان نچھاور کرتے رہتے ہیں اور اس کی فکر اور چکر میں پڑکر اللہ کی بلند وبالاذات کو بھول جاتے ہیں۔ یعنی ہم نے دنیا اور متاعِ دنیا کو لیلیٰ بناکر اپنے مولیٰ کو فراموش کردیا ہے، جو کس قدر غفلت کشی اور انجام سے بے خبری کی بات ہے ؎ قدم سوئے مرقد نظر سوئے دنیا کدھر جارہا ہے کدھر دیکھتا ہے تمت بالخیر