روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
۱) آپ انہیں سلام میں پہل کرنے کی کوشش کریں۔ ۲)کبھی کبھار اپنے گھر پر انہیں بلاکر ناشتے کی دعوت دیں۔ ۳) ہدیہ وتحفہ دینے کا معمول رکھیں۔ ۴) اپنی مجلسوں میں ان کی خوبیوں کا ذکر کریں۔ 5) خلوت اور جلوت میں ان کے لیے دعا کریں۔ ان پانچ باتوں میں سے کوئی بات ایسی نہیں تھی جو ان کے نفس اور طبیعت پر بارکا موجب نہ بنے۔ گویایہ ایک نہایت مفید مگر تلخ دوا تھی جس کا حلق کے نیچے اترنا دشوار تر تھا۔ مگر تجویز شیخِ کامل کی تھی، عمل میں لائی گئی۔ آہستہ آہستہ تکدر ختم ہونے لگا۔ نفرت محبت میں بدلتی گئی، انبساط نے انقباض کی جگہ لینا شروع کیایہاں تک کہ دو دل جو کچھ دنوں پہلے بہت دور تھے آپس میں شیروشکر ہوگئے۔ ہر ایک کا چہرہ دوسرے کے لیے گلاب کی طرح کھلنے لگا،انہوں نے خود ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ میں نفرت وعداوت میں جادۂ اعتدال سے بہت دور جا پڑا تھا۔ اگر میں اپنے مرشد سے رجوع نہ کرتا اور وہ میری اصلاح نہ فرماتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ حضرت پر اپنی سوجان فدا کروں، اور گر کران کے قدموں سے لپٹا رہوں کہ ان کی برکت سے کیسی پُرسکون حیات عطا ہوئی۔ فرمایاکہیہ ہے شیخ کی اصلاح اور ان کی باتوں کو مان لینے کا اثر۔ اگر آج کسی شیخِ کامل سے اپنا تعلق قائم کرنے اور ان کی اصلاحی باتوں کو مان لینے کا جذبہ عام ہوجائے تو سینکڑوں بُرائیاں ہماری زندگی سے نکل جائیں اور ان کی جگہ اچھائیاں لے لیں۔ لیکن آج ہم کسی کو بڑ ابنانے میں عار محسوس کرتے ہیں، ہر شخص اپنے آپ ہی کو بڑا سمجھنے لگا ہے،جو اس کی طبیعت اور مزاج میں آئے خیال کرتا ہے کہ یہی صحیح ہے اور خواہشِ نفسانی کے بت کی پوجا زور و شور سے جاری ہے۔ پھر اس ماحول میں اخلاقی اور روحانی امراض کا علاج ہو تو کیوں کر ہو؟ اور زندگی صاف ستھری بنے تو کیوں کر بنے؟ ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر بھلے بُرے کی تمیز پیدا کریں اور اپنی اصلاح سے کسی لمحےبھی غافل نہ رہیں۔ اور اپنے کو کبھی مستقل بالذات نہ سمجھیں۔ حضرت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ فرمایا