روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
ہوجاتا ہے تو آنکھوں میں نور کہاں سے آئے گا! اور یہ سوچے کہ کتنی محنت سے تو ذکر و عبادت کررہے ہیں اور بدنگاہی سے ان کا نورضایع کررہے ہیں اور قربِ حقیقی کے خصوصی انوار و برکات سے محروم ہو رہے ہیں۔خوب سمجھ لیجیے کہ معصیت پر اصرار اور عادت کے ساتھ حصولِ نسبت مع اﷲکا گمان سخت دھوکا ہے۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔جس وقت کسی حسین پر نظر پڑجائے فوراً کسی بدصورت کو دیکھے۔ موجود نہ ہو تو تصور کرے کسی کالے کلوٹے کاکہ چیچک رُو ہے،چپٹی ناک ہے،دانت لمبے لمبے ہیں،آنکھ کا کانا ہے،سرکاگنجا ہے،جسم بہت بلغمی ہے، توند نکلی ہوئی ہے اور دست لگے ہیں جن پر مکھیاں بھنک رہی ہیں۔ اور یوں بھی سوچے کہ یہ محبوب جب مرجائے گاتو لاش گل سڑ کر بدنما ہوگی اور کیڑے رینگتے نظر آئیں گے مگر کسی بدصورت کے تصور کا نفع دیرپا نہ ہوگا وقتی فائدہ ہوگاپھر تقاضا اس حسین کا ستائے گا، لہٰذا آیندہ تقاضے کو کمزور اور مضمحل کر دینے کا علاج یہ ہے کہ خدا کی یاد بہت کرے، دوسرے خدا تعالیٰ کے عذاب کا بھی خیال جمائے،تیسرے یہ سوچے کہ اس کو مجھ پر پوری قدرت ہے۔ ایک مدت تک عمل کرنے سے آہستہ آہستہ یہ چور نکلتا ہے۔ ایسا پرانا مرض ایک دن یا ایک ہفتہ میں نہیں جاتا۔ ہمت نہ ہارے، کوشش کرتا رہے۔ تھوڑا تھوڑا یہ تقاضا گھٹتا رہے گا اور نفس قابو میں آجائے گا۔ اور یہ خواہش نہ کرے کہ بالکل تقاضا ہی ختم ہوجائے کیوں کہ جب بالکل تقاضا نہ ہوگا تو پھر اجر کیا ملے گا! اگر نامرد کہے کہ میں عورت کے پاس نہیں جاتا۔ تو کیا کمال ہے؟ کوئی اندھا کہےکہ میں کسی عورت کو نہیں دیکھتا۔ تو کیا کمال ہے؟یہ کون سی تعریف کی بات ہے۔ پس بالکل تقاضا نہ ہونے کی طلب سخت نادانی و جہل ہے۔ مطلوب صرف اتنا ہے کہ تقاضے اس قدر مغلوب اور مضمحل ہوجائیں جو باآسانی قابو میں آجائیں۔ یہ بیماری بہت پھیل رہی ہے، جو نیک کہلاتے ہیں وہ بھی اس میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ خدا کے واسطے اس کا انتظام کرنا چاہیے۔ صاحبو! اگر حق تعالیٰ سامنے کھڑا کرکے اتنا دریافت فرمالیں کہ تو نے ہمیں چھوڑ کر غیر پر کیوں نظر کی؟تو بتلائیے کیا جواب دیجیے گا؟ یہ بات ہلکی نہیں ہے، اس کا بڑا انتظام کرنا چاہیے۔ ایک اور تدبیر یہ ہے کہ جب دل میں بُرا خیال آئے یا بدنگاہی کی حرکت ہوجائے فوراً وضو کرو۔ ۲ رکعت نماز توبہ پڑھو۔پہلے دن تو بہت سی نفلیں پڑھنی