روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جب اپنے اعمال کی قبولیت کا پتا نہیں اور یقینی فیصلے کا علم قیامت میں ہوگا تو پھر مخلوق سے تعریف چاہنا اور اُس پر خوش ہونا نادانی ہے۔ جو مخلوق ضعیف اور عاجز ہے اور کوئی نفع نقصان اُس کے ہاتھ میں نہیں اُس سے تعریف چاہنا بھی بے کار ہے، سب تعریف اور ہر کمال حق تعالیٰ ہی کے لیے زیباہے۔ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَؕ؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو تم کو نیکیاں اور بھلائیاں پہنچتی ہیں وہ اﷲ کی طرف سے ہیں اور جو بُرائیاں ہیں وہ تمہارے نفس کی طرف سے۔ یہ بیماری بھی کسی شیخِ کامل کی صحبت اور خدمت ہی سے جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ توفیق بخشیں،آمین ؎ اے تو افلاطون و جالینوس ما اے دوائے نخوت و ناموس ما حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے نفس کو پاک و صاف اور اچھا نہ سمجھا کرو،یہ کافروں کی شان ہے کہ اپنے اعمال اور اپنے آپ کو اچھا سمجھیں۔ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ خود پسندی تباہ کردیتی ہے کیوں کہ آدمی جب اپنے آپ کو نیکوکار سمجھنے لگتا ہے تو مطمئن ہوجاتا ہے اور سعادتِ اُخروی سے محروم ہوجاتا ہے۔ شیطان نے چار ہزار برس عبادت کی مگر انجام کیا ہوا ؟حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم اتنے نیک اعمال کے باوجود ہر وقت ڈرتے رہتے تھے۔ مَخَافَۃَ اَنْ لَّایُقْبَلَ مِنْھُمْ اِس خوف سے کہ نہ معلوم قبول بھی ہے یا نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے جمال و کمال کے سامنے اپنے جمال و کمال کو دیکھنا ایسا ہے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کے حُسن و جمال کو دیکھنے کے بجائے ایک آئینہ جیب سے نکالے اور اپنا چہرہ اور سنگار دیکھتا رہے تو وہ محبوب ایک طمانچہ لگا کر اُسے بھگا دے گا کہ جب اپنے ہی کو دیکھنا ہے تو یہاں کیوں آیا ہے؟ پس اپنے ہر وصف اور خوبی کو حق تعالیٰ کی عطا سمجھے اور اﷲ تعالیٰ کے شکر و ثنا سے زبان کو تر رکھے اور ان ہی کے کمالات و جمال کے سوچنے میں غرق رہے۔ ------------------------------