روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
اِس شعر کی تشریح یہ ہے کہ ایک بلاک (بعض مقامات پر اس کو اینٹ کہتے ہیں جو سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔)جس سے یہاں مکان تعمیر کیے جاتے ہیں دو روپے قیمت سے خوب سیمنٹ ڈال کر تیار کریں اور اُس کو کسی بھنگی کے مکان میں لگا دیں اور اِسی طرح دوسرا بلاک اِسی قیمت کا اپنے بیت الخلا میں لگا دیں اور اِسی قیمت کا تیسرا بلاک مسجد کی تعمیر میں لگا دیں اور چوتھا بلاک اِسی قیمت کا مسجدِ نبوی میں لگا دیں اور پانچواں بلا ک اِسی قیمت کا خانۂکعبہ میں لگا دیں تو آپ خود فیصلہ کریں گے کہ یہ سب بلاک اپنی قیمت کے اعتبار سے تو یکساں اور برابر ہیں مگر موقع استعمال سے کیا اِن کی حیثیتوں اور شرافتوں میں فرق نہیں ہوا؟ کیا بیت الخلا کے اندر کا بلاک دعوائے ہمسری کرسکتا ہے مسجد کے اندر لگے ہوئے بلاک سے؟ پس اگر اِس کی جوانی طوفانی خواہشات کی نذر کردی گئی تو مرنے سڑنے گلنے والی لاشوں پر جوانی کا بلاک لگ کر جوانی بے قیمت ہوگئی ۔ خاک سے بنا عاشق خاک سے بنے معشوق پر فدا ہوکر تباہ ہوگیا۔ خاک جب خاک پر فدا ہوگی تو گویا خاک نے اپنے کو خاک میں ملا دیا۔ جیسا کہ قبرستان میں عاشق اور معشوق دونوں کی قبروں میں چھ ماہ بعد اُن کا حشر دیکھ سکتے ہو کہ دونوں خاک ہوکر رہ گئے، برعکس اِس کے اگر جوانی کو حق تعالیٰ کی عبادت میں صَرف کیا اور اُن کی رضا کے تابع کردیا تو گویا جوانی کے بلاک کو رضائے الٰہی کےمحل میں لگا دیا پھر یہ جوانی کس قدر قیمتی ہوگی۔ حق تعالیٰ کی اِس توفیق پر وہ جوانی جس قدر بھی شکر کرے حق ادا نہیں ہوسکتا اور قیامت کے دن اِس جوان کو عرش کا سایہ عطا ہوگا اور کیسے کیسے انعامات سے نوازا جائے گا۔ پس خونِ ارماں کا غم نہ کرے بلکہ شکر کرے اور بزبانِ حال کہے ؎ سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی خلاصۂرسالہ یہ ہے کہ بدنگاہی اور عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے دُنیا اور آخرت دونوں کی، جسے تباہی منظور ہو وہی اِس بیماری کے علاج سے غفلت کرتا ہے۔ ایسے مریضوں کو چاہیے کہ فوراً کسی روحانی معالج یعنی اﷲ والے شیخِ کامل سے اپنا حال بتا کر علاج شروع کردے اور ہرگز یہ خیال نہ کرے کہ اﷲ والے ایسے بُرے حالات سُن کر حقیر سمجھیں