دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
اور ان عظیم دینی مقامات کو کالعدم کردینا کسی طرح درست نہیں ۔ (۴) بعض علماء سے پوچھا گیا کہ اس خون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو صحابۂ کرام کے باہمی مشاجرات میں بہایا گیا تو انہوں نے جواب میں یہ آیت پڑھ دی ’’تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلَا تُسْاَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘ کہ یہ ایک امت تھی جو گذر گئی اس کے اعمال اس کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ (۵) کسی اور بزرگ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’ایسے خون ہیں کہ اللہ نے میرے ہاتھوں کو اس میں رنگنے سے بچایا، اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کروں گا‘‘ مطلب یہی تھا کہ میں کسی ایک فریق کو کسی ایک معاملے میں یقینی طور پر خطا کار ٹھہرانے کی غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔ (۶) علامہ ابن فورکؒ فرماتے ہیں : ’’ہمارے بعض اصحاب نے کہا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ان کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی، وہ حضرات آپس کے ان اختلافات کے باوجود ولایت اورنبوت کی حدود سے خارج نہیں ہوئے بالکل یہی معاملہ صحابہ کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا بھی ہے‘‘۔ (۷) اور حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ: جہاں تک اس خونریزی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس میں خود صحابہ کے درمیان اختلاف تھا۔ (۸) اور حضرت حسن بصریؒ سے صحابہ کے باہمی قتال کے بارے میں پوچھا گیا