دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کے نزدیک ایسا ہی ہے جیسا امت کے مجموعہ نے سمجھا ہے۔ اسی بات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا ہے: لَنْ تَجْمَعَ اُمَّتِیْ عَلَی الضَّلَالَۃِ۔ یعنی میری امت کا مجموعہ کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے اصول کی کتابوں میں اس کے حجت ہونے اور اس کے شرائط ولوازم پر مفصل بحث کی جاتی ہے، اورا حکام شرعیہ کی حجتوں میں قرآن و حدیث کے بعد تیسرے نمبر پر اجماع کو رکھا جاتا ہے، اور در حقیقت اجماع کا شرعی حجتوں میں داخل ہونا اور اس امت کے لیے مخصوص ہونا خود بھی ہمارے زیر بحث مسئلہ ختم نبوت کی روشن دلیل ہے، جیسا کہ صاحبِ توضیح لکھتے ہیں : وَماَ اتَّفَقَ عَلَیْہِ الْمُجْتَہِدُوْنَ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ عَصْرٍ عَلٰی اَمْرٍ فَہٰذَا مِنْ خَوَاصِ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ فَاِنَّہٗ خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ لَا وَحْیَ بَعْدَہٗ وَقَدْ قَالَ اﷲُ تَعَالیٰ الیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَلَاشَکَّ اَنَّ الاَحْکَامَ الَّتِیْ تَثْبُتُ بِصَرِیْحِ الْوَحْیِ بِالنِّسْبَۃِ اِلَی الْحَوَادِثِ الْوَاقِعَۃِ قَلِیْلَۃٌ غَایَۃَ الْقِلَّۃِ فَلَو لَمْ تُعْلَمْ اَحْکَامُ تِلْکَ الْحَوَادِثِ مِنَ الْوَحْیِ الصَّرِیْح وَبَقِیَتْ اَحْکَامُہَا مُہْمَلَۃً لَا یَکُوْنَ الدِّیْنُ کَامِلاً فَلاَ بُدَّ اَنْ یَکُوْنَ لِلْمُجْتَہِدِیْنَ وِلَایَۃُ اسْتِنْبَاطِ اَحْکَامِہَا مِنَ الْوَحْیِ۔ (توضیح مصری ۱؍۴۹) ترجمہ: اور وہ حکم جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجتہدین کا کسی زمانہ میں اتفاق ہوجائے اس کا واجب التعمیل ہونا اس امت کی خصوصیات میں سے ہے، کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں ، اور آپ کے بعدکسی پر وحی نہیں آئے گی، اور ادھر یہ اشارۂ خداوندی ہے کہ ہم نے تمہارا دین کا مل کردیاہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ جو احکام