دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
داخل ہیں ، اس لیے عام انداز میں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو کوئی حکم یا مال یا اور کوئی چیز آپ کسی کو عطا فرمادیں وہ اس کو لے لینا چاہئے اور اس کے مطابق عمل کے لیے تیار ہوجانا چاہئے، اور جس چیز سے روک دیں اس سے رکنا چاہئے۔ بہت سے صحابہؓ نے اسی عام مفہوم کو اختیار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو اس آیت کی بنا پر قرآن ہی کا حکم اور واجب التعمیل قرار دیا ہے۔ قرطبی نے فرمایا کہ اس آیت میں اتیٰ کے بالمقابل نہی کا لفظ آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اٰتٰی کے معنی یہاں اَمَرَ کے ہیں ، جو نہی کا صحیح مقابل ہے (اھ) اور قرآن کریم نے نہی کے مقابلہ میں امر کے لفظ کو چھوڑ کر اٰتیٰ کا لفظ استعمال شاید اس لیے فرمایا کہ جس مضمون کے سیاق میں یہ آیت آئی ہے، یعنی مال فئ کی تقسیم اس پر بھی آیت کا مضمون شامل رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک شخص کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہنے دیکھا تو حکم دیا کہ یہ کپڑے اتار دو، اس شخص نے کہا کہ آپ اس کے متعلق مجھے قرآن کی کوئی آیت بتاسکتے ہیں جس میں سلے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہو۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا ہاں وہ آیت میں بتاتا ہوں پھر یہی آیت مَا اتَاکُمُ الرَّسُوْلُ الخ پڑھ کر سنادی۔ امام شافعیؒ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا کہ میں تمہارے ہر سوال کا جواب قرآن سے دے سکتا ہوں پوچھو جو کچھ پوچھنا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک محرِم نے زنبور (بھڑ، تتیا) مار ڈالا تو اس کا کیا حکم ہے؟ امام شافعیؒ نے یہی آیت مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ تلاوت کرکے حدیث سے اس کا حکم بیان فرمادیا۔ (قرطبی) (معارف القرآن ۸؍۳۷۱)