دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہوا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی آیت قرآن یا حدیث سنے اس پرلازم ہے کہ وہ امت کو پہنچائے، یہاں تک کہ ازواج مطہرات پر بھی لازم کیا گیا کہ جو آیات قرآن ان کے گھروں میں نازل ہوں یا جو تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو حاصل ہوں اس کا ذکر امت کے دوسرے افراد سے کریں ، اور یہ اللہ کی امانت ان کو پہنچائیں ۔ (معارف القرآن ۷؍۱۴۷، سورۂ احزاب) اس آیت میں جس طرح آیات قرآن کی تبلیغ و تعلیم امت پر لازم کی گئی ہے اسی طرح لفظ حکمت فرماکر احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و تعلیم کو بھی لازم کیا گیا ہے، اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حکم کی تعمیل ہر حال میں کی ہے، صحیح بخاری میں حضرت معاذؓ کا یہ واقعہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی، لیکن اس کو عام لوگوں کے سامنے اس لیے بیان نہیں کیا کہ خطرہ تھا کہ لوگ اس کو اس کے درجہ میں نہ رکھیں ، اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں لیکن جب ان کی وفات کا وقت آیا تو لوگوں کو جمع کرکے وہ حدیث سنادی، اور فرمایا کہ میں نے اس وقت تک دینی مصلحت سے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا، مگر اب موت کا وقت قریب ہے اس لیے امت کی یہ امانت ان کو پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں ، صحیح بخاری میں ان کے الفاظ یہ ہیں : ’’فاخبر بہ معاذ عند موتہ تأثما‘‘ یعنی حضرت معاذؓ نے یہ حدیث لوگوں کو وفات کے وقت اس لیے سنادی کہ وہ گناہگار نہ ہوں کہ حدیث رسول امت کو نہیں پہنچائی۔ یہ واقعہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ اس حکم قرآنی کی تعمیل سب صحابہ کرام واجب و ضروری سمجھتے تھے، اور صحابہ کرام نے حدیث کو احتیاط کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا تھا، تو حدیث کی حفاظت بھی ایک درجہ میں قرآن کی حفاظت کے قریب قریب ہوگئی، اس معاملہ میں شبہات نکالنا در حقیقت قرآن میں شبہات نکالنا ہے۔ واللہ اعلم۔ (معارف القرآن ۷؍۱۴۲، سورۂ احزاب)