دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ثابت ہے وہ سب قرآن ہی کے ارشادات ہیں ، بعض تو ظاہری طور پر کسی آیت کی تفسیر وتوضیح ہوتی ہیں ، جن کو عام اہل علم جانتے ہیں اور بعض جگہ بظاہر قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں بطور وحی اس کا القاء کیا جاتا ہے، وہ بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی کے حکم میں ہوتا ہے کیونکہ حسب تصریح قرآنی آپ کی کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں ہوتی بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عبادات، معاملات، اخلاق، عادات، سب کی سب وحی خداوندی اور بحکم قرآن ہیں ۔ اور جہاں کہیں آپ نے اپنے اجتہاد سے کوئی کام کیا تو بالآخر وحی الٰہی سے یا اس پر کوئی فکر نہ کرنے سے اس کی تصحیح اور پھر تائید کردی جاتی ہے اس لیے وہ بھی بحکم وحی ہوجاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بعثت قرآن کریم کی تفسیر و بیان کو قرار دیا ہے، جیسا کہ سورۂ جمعہ وغیرہ کی متعدد آیات میں تعلیم کتاب کے الفاظ سے اس مقصد بعثت کو ذکر کیا گیا ہے، اب وہ ذخیرۂ حدیث جس کو صحابہؓ و تابعین سے لے کر متاخرین محدثین تک امت کے باکمال افراد نے اپنی جانوں سے زیادہ حفاظت کرکے امت تک پہنچایا ہے اور اس کی چھا ن بین میں عمریں صرف کرکے روایات حدیث کے درجے قائم کردئیے ہیں ، اور جس روایت کو بحیثیت سند اس درجے کا نہیں پایا کہ اس پر احکام شرعیہ کی بنیاد رکھی جائے اس کو ذخیرۂ حدیث سے الگ کرکے صرف ان روایات پر مستقل کتابیں لکھ دی ہیں جو عمر بھر کی تنقیدوں اور تحقیقات کے بعد صحیح اور قابل اعتماد ثابت ہوئی ہیں ۔ (معارف القرآن ۵؍۳۳۶ پ:۱۴) اگر آج کوئی شخص اس ذخیرۂ حدیث کو کسی حیلے بہانے سے ناقابل اعتماد کہتا ہے تو