دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کردیا جاتا ہے، مگر احکام الٰہیہ جس میں اس کا کوئی تصور و احتمال ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم محیط ازلی اور ابدی سے کوئی چیز باہر نہیں کوئی حکم شرعی جاری ہونے کے بعد لوگوں کے کیا حالات رہیں گے، کیا کیا صورتیں پیش آئیں گی، حق تعالیٰ کو پہلے ہی سے معلوم ہے لیکن باقتضائے حکمت ومصلحت کوئی حکم کچھ عرصہ کے لیے جاری کیا جاتا ہے پہلے ہی سے اس کا ہمیشہ جاری رکھنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایک مدت اللہ کے علم میں متعین ہوتی ہے کہ اس مدت تک یہ حکم جاری رہے گا۔ مگر اس مدت کا اظہار مخلوق پر بمصلحت نہیں کیا جاتا، الفاظ کے عموم سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم غیر موقت اور دائمی ہے، عند اللہ جو اس کی مدت مقرر ہے، جب وہ مدت ختم ہوکر حکم واپس لیا جاتا ہے تو مخلوق کی نظر میں وہ حکم کی منسوخی ہوتی ہے اور حقیقت میں وہ بیانِ مدت ہوتا ہے یعنی اس وقت مخلوق پر ظاہر کردیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ حکم ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ صرف اسی مدت کے لیے جاری کیا تھا اب وہ مدت ختم ہوگئی حکم باقی نہیں رہا۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات کے منسوخ ہونے پر جو عامیانہ شبہ کیا جاتا ہے اس تقریر سے وہ شبہ رفع ہوگیا، کیا نماز تہجد خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس آیت کے بعد بھی فرض رہی؟ بعض ائمہ تفسیر نے اسی کو اختیار کیا ہے ان کا استدلال سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ’’وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃ لکَ‘‘ سے ہے جس میں نماز تہجد کو خاص آپ کے ذمہ ایک زائد فرض کی حیثیت سے عائد کیا گیا ہے، کیونکہ نافلہ کے لغوی معنی زائدہ کے آتے ہیں ، اور مراد فریضہ زائدہ ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ فرضیت اس نماز کی امت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سے منسوخ ہوگئی، البتہ بطور استحباب اس کی ادائیگی سب کے لیے باقی رہی، اور آیت مذکورہ میں ’’نافلۃ لک‘‘ اپنے اصطلاحی معنی میں بحکم نفل ہے۔ (معارف القرآن سورۂ مزمل ۸؍۵۹۸)