دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
میں مذکور نہیں ، مگر اتنی بات اس سے معلوم ہوئی کہ خط لکھنے والے کے لیے سنت انبیاء یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنا نام لکھے جس میں بہت سے فوائد ہیں ، مثلاً خط پڑھنے سے پہلے ہی مکتوب الیہ کے علم میں آجائے کہ میں کس کا خط پڑھ رہا ہوں تاکہ وہ اسی ماحول میں خط کے مضمون کو پڑھے اور غور کرے، مخاطب کو تکلیف نہ اٹھانی پڑے کہ کاتب کانام خط میں تلاش کرے کہ کس کا خط ہے کہاں سے آیا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے مکاتیب منقول اور شائع شدہ عالم میں موجود ہیں ان سب میں بھی آپ نے یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے (من محمد عبد اﷲ ورسولہ) سے شروع فرمایا گیا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی اپنے چھوٹے کو خط لکھے اس میں تو اپنے نام کی تقدیم پر کوئی اشکال نہیں لیکن کوئی چھوٹا اپنے باپ، استاد، شیخ یا اور کسی بڑے کو خط لکھے اس میں اپنے نام کو مقدم کرنا کیا اس کے ادب کے خلاف نہ ہوگا، اور اس کو ایسا کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اس معاملہ میں حضرات صحابہ کرام کا عمل مختلف رہا ہے، اکثر حضرات نے تو اتباع سنت نبوی کو ادب پر مقدم رکھ کر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خطوط لکھے ان میں بھی اپنے نام کو مقدم رکھا ہے۔ روح المعانی میں بحر محیط کے حوالہ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔ ماکان احد اعظم حرمۃ من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وکان اصحابہ اذا کتبوا الیہ کتابا بدأ وا بأ نفسہم، قلت! وکتاب علاء الحضرمیؓ یشہد لہ علی ماروی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تو کوئی انسان قابل تعظیم نہیں مگر صحابہ کرام جب آپ کو بھی خط لکھتے تو اپنا نام ہی شروع میں لکھا کرتے تھے، اور حضرت علاء حضرمی کا خط جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام معروف ہے وہ اس پر شاہد ہے۔