دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کوئی دینی حکم حلال وحرام کا اس سے متعلق نہ ہو ، اگر چہ فعل فی نفسہٖ محمود ہو ۔ اس کی نظیر حدیث وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمانۂ جاہلیت میں جب بیت اللہ کی تعمیر کی گئی تو اس میں کئی چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف کردی گئی ہیں ، اول تو یہ کہ بیت اللہ کا کچھ حصہ تعمیر سے باہر چھوڑدیا ،دوسرے بناء ابراہیمی میں لوگوں کے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے دودروازے تھے ،ایک مشرقی جانب میں دوسرا مغربی جانب میں جس کی وجہ سے بیت اللہ میں داخل ہونے اور نکلنے میں زحمت نہ ہوتی تھی ،اہل جاہلیت نے اس میں دوتصرف کئے کہ مغربی دروازہ تو بالکل بند کردیا اور مشرقی دروازہ جو سطح زمین سے متصل تھا اس کو اتنا اونچا کردیا کہ بغیر سیڑھی کے اس میں داخلہ نہ ہوسکے ، جس سے مقصد یہ تھا کہ وہ جس کو اجازت دیں صرف وہ اندر جاسکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر نومسلم لوگوں کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ نہ وہتا تو میں بیت اللہ کو پھر بناء ابراہیمی کے مطابق بنادیتا ، یہ حدیث سب کتب معتبرہ میں موجودہے ، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے اپنا یہ ارادہ جو شرعاً محمود تھا س کو ترک کردیا، اور منجانب اللہ اس پر کوئی عتاب نہیں ہوا، جس سے اس عمل کا عنداللہ مقبول ہونا بھی معلوم ہوگیا، مگر یہ معاملہ بیت اللہ کو بناء ابراہیمی کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنے کا ایسا نہیں جس پر کوئی مقصد شرعی موقوف ہویاجس سے احکام حلال وحرام متعلق ہوں ۔ بخلاف واقعۂ نکاح زینبؓ کے کہ اس سے ایک مقصد شرعی متعلق تھا کہ جاہلیت کی رسم بداور اس خیال باطل کی عملی تردید ہوجائے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح حرام ہے ،کیونکہ قوموں میں چلی ہوئی غلط رسموں کو توڑنا عملاً جب ہی ممکن ہوتا ہے جب اس کا عملی مظاہرہ ہو، حکم ربانی اسی کی تکمیل کے لئے حضرت زینب ؓ کے نکاح سے