دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
عام آدمی ہو تو جواب کی عبارت اس کی مناسبت سے عام فہم ہونی چاہئے۔ مثلاً میراث کے مسائل کا جواب دیتے ہوئے عام طور سے مفتی حضرات یہ جملے لکھتے رہے ہیں کہ: ’’مرحوم کا جملہ ترکہ بعد تقدیم حقوق متقدمہ علی الارث حسب ذیل طریقہ پر تقسیم ہوگا‘‘۔ اس فارمولے کا مطلب پہلے ہر پڑھے لکھے شخص کو معلوم ہوتا تھا لیکن اب اگر یہ جملہ کسی گریجویٹ بلکہ پی ایچ ڈی کے سامنے بھی آجائے تو وہ اس کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا اور اس سے میراث کی تقسیم میں خلل واقع ہوسکتا ہے۔ اول تو آج لوگوں کو یہ بھی احساس نہیں رہا کہ میت کے ترکہ میں کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں چنانچہ عام طور سے میت کے ذاتی استعمال کی چھوٹی موٹی چیزوں بلکہ بعض اوقات گھر کے ساز و سامان تک کو ترکہ کی تقسیم میں شامل نہیں کیا جاتا، پھر نہ لوگوں کو حقوق متقدمہ علی الارث کا مطلب معلوم ہے اور نہ ان کے مصداق کا پتہ ہے اس لیے حضرت والدصاحبؒ نے میراث کے مسائل میں اس جملے کے بجائے حسب ذیل طویل عبارت لکھوانی شروع کی کہ: ’’صورت مسئولہ میں مرحوم نے جو کچھ نقدی زیور یا جائداد یا چھوٹا بڑا سامان چھوڑا ہو اس میں سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے متوسط اخراجات نکالے جائیں پھر اگر مرحوم کے ذمہ کچھ قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے اور بیوی کا مہر اگر ابھی تک ادا نہیں کیا تو وہ بھی دین میں شامل ہے، اس کو ادا کیا جائے۔ پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کسی غیر کے حق میں کی ہو تو (ایک بٹاتین)۳/۱ کی حد تک اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس کے بعد جو ترکہ بچے اسے حسب ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کیا جائے‘‘۔