دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ان باتوں کے معلوم ہونے پر ایمان و عمل کا کوئی مسئلہ موقوف نہیں ، ان مسائل پر بحث ومباحثہ میں وقت صرف کرنے کے بجائے وہ کام کیجئے جو آخرت میں کام آئے اور بعض اوقات صرف اتنے جواب پر اکتفاء فرماتے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہ مَا لاَیَعْنِیْہِ‘‘۔ یعنی انسان کے اچھا مسلمان بننے کا ایک جزء یہ بھی ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو چھوڑ دے۔ ایک مرتبہ ملک میں ’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے مسئلہ پر بحث و مباحثہ کی ایسی گرم بازاری ہوئی کہ بستی بستی مناظرے منعقد ہونے لگے اور فریقین کی طرف سے مناظرانہ کتابوں کا ایک انبار تیار ہوگیا، حضرت والدصاحب کے پاس اس مسئلہ پر سوالات کی بھرمار ہوئی تو اس زمانہ میں آپ کا طرز عمل یہ تھا کہ:اگر سوال کسی ذی علم کی طرف سے آیا ہے اورا ندازہ یہ ہے کہ اس کا مقصد اپنے کسی شبہ کو دور کرنا یا واقعۃً علمی تحقیق کرنا ہے تو آپ اس کا جواب حسب ضرورت اجمال یا تفصیل کے ساتھ دے دیتے، لیکن عموماً جو سوالات عوام کی طرف سے آتے تھے ان کا جواب یہ دیتے کہ مسئلہ کی تفصیلات کا جاننا آخرت کی نجات کے لیے کوئی ضروری نہیں لہٰذا اس بحث میں پڑنے کے بجائے شریعت کے علمی احکام کا علم حاصل کرنے میں وقت صرف کیجئے۔ ( البلاغ ص:۴۲۵) (۳) اسی طرح آپ نے بار ہا فرمایا کہ مفتی کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس کے فتوے کا اثر اور نتیجہ کیا ہوگا، چنانچہ بعض اوقات کسی مسئلہ کا ٹھیٹھ فقہی حکم بیان کرنے سے مفاسد کا اندیشہ ہوتا ہے مثلاً ایک چیز فی نفسہ مباح ہے لیکن اس کی کھلی چھوٹ دے دینے سے اندیشہ یہ ہے کہ بات معصیت تک پہنچے گی اور لوگ اپنی حدود پر قائم نہیں رہیں گے ایسے موقع پر مفتی کو یہ بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے کہ اس کام کی حوصلہ افزائی نہ ہو اور دوسری طرف فقہی حکم میں تصرف بھی نہیں کیا جاسکتا۔(البلاغ ص: ۴۲۶)