دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اس طرح یہ ممکنہ فتنہ فرو ہوگیا۔ (البلاغ ص:۴۲۴) (۲) اسی طرح حضرت والد صاحبؒ کو اس بات کا بڑا اہتمام تھا کہ جن سوالات پر دنیا وآخرت کا کوئی عملی فائدہ مرتب نہ ہو ان کی ہمت شکنی کی جائے، کیونکہ ایک عرصہ سے لوگوں میں یہ مزاج ابھرا ہے کہ دین کے وہ عملی مسائل جن پر زندگی کی درستی اور آخرت کی نجات موقوف ہے ان سے تو غافل اور بے خبر رہتے ہیں اور بے فائدہ نظریاتی بحثوں میں نہ صرف وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ ان کی بنیاد پر باقاعدہ محاذآرائی شروع کردیتے ہیں جن سے ملت میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ حضرت والدصاحبؒ ایسے سوالات کے جواب میں فتویٰ لکھنے کے بجائے ایسی نصیحت فرماتے تھے جس سے عمل کا دھیان اور آخرت کی فکر پیدا ہو مثلاً ایک مرتبہ کسی نے سوال کیاکہ یزید کی مغفرت ہوگی یا نہیں ؟ آپ نے جواب دیا یزید سے پہلے اپنی مغفرت کی فکر کرنی چاہئے۔ ایک صاحب نے ایک مشہور شخصیت کی کچھ باتیں لکھ کر سوال کیا کہ کیا وہ ان امور کی وجہ سے فاسق ہوگئے؟ آپ نے فرمایا مجھے ابھی تک اپنے فسق کی طرف سے اطمینان نہیں ہوا میں کسی دوسرے کے بارے میں کیا فیصلہ کروں ؟ غرض اگر عوام کی طرف سے اس قسم کے سوالات آتے کہ عرش افضل ہے یا روضۂ اقدس؟ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پاگئے؟ زلیخا سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح ہوا تھا یا نہیں ؟ اصحاب کہف کی صحیح تعداد کیا تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین مومن تھے یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات طاہر تھے یا نہیں ؟ اور والد صاحب کو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سوالات بلا ضرورت محض بحث و مباحثہ کی خاطر پوچھے جارہے ہیں تو عموماً آپ ان کا جواب دینے کے بجائے یہ تحریر فرماتے کہ