دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
عائشہؓ سے فرمایا کہ اس آیت میں جن فرقوں کا ذکر ہے وہ اہل بدعت اور اپنی خواہشات و خیالات کے تابع نئے طریقے ایجاد کرنے والے ہیں ، یہی مضمون حضرت ابو ہریرہؓ سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں نئے نئے طریقے اپنی طرف سے ایجاد کرنے کو بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایاہے۔ امام احمد، ابو داود، ترمذی وغیرہ نے بروایت عرباض بن ساریہ نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت اختلافات دیکھیں گے، اس لیے (میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ) تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے اسی کے مطابق ہر کام میں عمل کرو، نئے نئے طریقوں سے بچتے رہو، کیونکہ دین میں نئی پیدا کی ہوئی ہر چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوگیا اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے نکال دیا۔ (رواہ ابو داؤد واحمد) تفسیر مظہری میں ہے کہ جماعت سے مراد اس حدیث میں جماعت صحابہ ہے، وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کورسول بنا کر بھیجا، اور آپ کو قرآن عطا فرمایا، اور قرآن کے علاوہ دوسری وحی عطا فرمائی، جس کو حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، پھر قرآن میں بہت سی آیات مشکل یامجمل یا مبہم ہیں ، ان کی تفسیر و بیان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعہ بیان کرنے کا وعدہ فرمایا: ’’ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مشکلات اور مبہمات کی تفسیر اور اپنی سنت کی تفصیلات …… اپنے بلاواسطہ شاگردوں یعنی صحابہ کرام کو اپنے قول وعمل کے