دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہیں اس اعتبار سے ایسی چیزوں کو بدعت حسنہ کہہ دیتے ہیں جوصریح طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہیں تھی بعد میں کسی ضرورت کی بنا پر ان کو اختیار کیا گیا جیسے آج کل کے مدارس اسلامیہ اور ان میں پڑھائے جانے والے علوم وفنون کہ در اصل بنیاد تعلیم اور درس اور مدرسہ کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، آپ نے خود فرمایا ’’اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً‘‘ یعنی میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ لیکن جس طرح کے مدارس کا قیام اور ان میں جس طرح کی تعلیم آج کل بضرورت زمانہ ضروری ہوگئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عہد میں اس کی ضرورت نہ تھی آج ضرورت پیش آئی تو احیاء سنت کے لیے اس کو اختیار کیا گیا، جو تعریف بدعت کی اوپر لکھی جاچکی ہے اس کی رو سے ایسے اعمال بدعت میں داخل نہیں لیکن لغوی معنی کے اعتبار سے کوئی ان کو بدعت کہہ دے تو بدعت حسنہ ہی کہا جائے گا۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے تراویح کی یکجا جماعت کو دیکھ کر اس معنی کے اعتبار سے فرمایا: نعمت البدعۃ ہذہ یعنی یہ بدعت تو اچھی ہے کیونکہ ان کو اور سب کو معلوم تھا کہ تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پڑھی اور پڑھائی اور زبانی اس کی تاکید کی اس لیے حقیقۃً اور شرعاً تو اس میں بدعت کا کوئی احتمال نہ تھا، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خاص عذر کی وجہ سے تراویح کی جماعت کا ایسا اہتمام نہ کیا گیا تھا جو بعد میں حضور ہی کی تعلیم کے مطابق کیا گیا اس لیے ظاہری اور لغوی طور پر یہ کام بھی نیا تھا اس کو نعمت البدعۃ فرمایا، بدعت حسنہ کا اس سے زیادہ کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ حضرت امام مالکؒ نے فرمایا من ابتدع بدعۃ یراہا حسنۃ فقد زعم ان محمداً صلی اﷲ علیہ وسلم خان الرسالۃ لان اللہ تعالیٰ یقول الیوم اکملت لکم دینکم فما لم یکن یومئذٍِ دیناً لا یکون الیوم دینا۔ (اعتصام ۱؍۴۸)