دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
دونوں جانب نہایت احتیاط کی مقتضی ہیں کیونکہ جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا وبال عظیم ہے اور حسب تصریح حدیث اس کہنے والے کے کفر کا اندیشہ قوی ہے، اسی طرح کسی کافر کو مسلمان کہنا یا سمجھنا بھی اس سے کم نہیں جیسا کہ عبارتِ شفاء سے منقول ہے اور شفاء میں مسئلہ کی نزاکت کو بایں الفاظ بیان فرمایا ہے: ولمثل ہذا ذہب ابو المعالی فی اجوبتہ الی محمد عبد الحق وکان سألہ عن المسألۃ فاعتذر لہ بان الغلط فیہ یصعب لان ادخال کافر فی الملۃ الاسلامیۃ او اخراج مسلم عنہا عظیم فی الدین (شرح شفا فصل فی تحقیق القول فی اکفار المتأولین ۲؍۵۰۰) ابو المعالی نے جو محمد عبد الحق کے سوالات کے جواب لکھے ہیں ان میں ان کا بھی یہی مذہب ثابت ہے کیونکہ ان سے ایسا ہی سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے عذر کردیا کہ اس بارہ میں غلطی سخت مصیبت کی چیز ہے کیونکہ کسی کافر کو مذہب اسلام میں داخل سمجھنا یا مسلمان کو اس سے خارج سمجھنا دین میں بڑے خطرہ کی چیز ہے۔ اسی لیے ایک جانب تو یہ احتیاط ضروری ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مبہم کلام سامنے آئے جو مختلف وجوہ کو محتمل ہو اور سب وجوہ سے عقیدہ کفریہ قائل کا ظاہر ہوتا ہو، لیکن صرف ایک وجہ ایسی بھی ہو جس سے اصطلاحی معنی اور صحیح مطلب بن سکے، گو وہ وجہ ضعیف ہی ہو، تو مفتی وقاضی کا فرض ہے کہ اس وجہ کو اختیار کرکے اس شخص کو مسلمان کہے۔ (کما صرح بہ فی الشفاء فی ہذہ الصفحۃ وبمثلہ صرح فی البحر وجامع الفصولین وغیرہ)۔ اور دوسری طرف یہ لازم ہے کہ جس شخص میں کوئی وجہ کفر کی یقینا ثابت ہوجائے اس کی تکفیر میں ہرگز تاخیر نہ کرے اور نہ اس کے متبعین کو کافر کہنے میں دریغ کرے جیسا کہ علماء امت کی تصریحات محررہ بالا سے بخوبی واضح ہوچکا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ (جواہرا لفقہ ۱؍۳۷)