دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
چہ تمام عمر طاعات و عبادات میں گذارے مگر عالم کے قدیم ہونے کا اعتقاد رکھے یا قیامت و حشر کا یا حق تعالیٰ کے عالم جزئیات ہونے کا انکار کرے اسی طرح وہ شخص جس سے کوئی چیز موجباتِ کفر میں سے صادر ہوجائے۔ اور علامہ شامی نے رد المحتار باب الامامۃ جلد اول میں بحوالہ تحریر الاصول نقل فرمایا ہے: لاخلاف فی کفرا لمخالف من اہل القبلۃ۔ (ای للضروریات) المواظب طول عمرہ علی الطاعات کما فی شرح التحریر۔ (۱؍۳۷۷) ترجمہ: اس میں کسی کا خلاف نہیں کہ اہل قبلہ میں سے جوشخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو وہ کافر ہے اگر چہ تمام عمرطاعات و عبادات میں گزار دے۔ اور شرح عقائد نسفی کی شرح نبراس ص:۵۷۲ میں ہے: اہل القبلۃ فی اصطلاح المتکلمین من یصدق بضروریات الدین إلی قولہ فمن انکر شیئاً من الضروریات (الی قولہ) لم یکن من أہل القبلۃ ولو کان مجاہداً بالطاعات وکذلک من باشر شیئا من أمارات التکذیب کسجود الصنم والإہانۃ بامر شرعی والإستہزاء علیہ فلیس من اہل القبلۃ ومعنی عدم تکفیر اہل القبلۃ ان لا یکفر بارتکاب المعاصی ولا بانکار الامور الخفیۃ غیر المشہورۃ ہذا ما حققہ المحققون۔ اہل قبلہ متکلمین کی اصطلاح میں وہ شخص ہے جو تمام ضروریاتِ دین کی تصدیق کرے پس جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے وہ اہل قبلہ میں سے نہیں اگر چہ عبادت و اطاعت میں مجاہدات کرنے والا ہو، ایسے ہی وہ شخص جو علامات کفر وتکذیب میں سے کسی چیز کا مرتکب ہو جیسے بُت کو سجدہ کرنا یا کسی امر شرعی کی اہانت و استہزاء کرنا وہ اہل قبلہ میں سے نہیں اور اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کے ارتکاب کی وجہ سے اس کو کافر نہ کہیں اور نہ ایسے امور کے انکار کی وجہ سے کافر کہیں جو اسلام میں مشہور نہیں یعنی ضروریات دین میں سے نہیں ۔