دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
گا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے، اس کی قلبی کیفیات اخلاص یا نفاق سے بحث کرنے کا کسی کو حق نہ ہوگا۔ لیکن جوشخص اظہار اسلام اور اقرار ایمان کے ساتھ ساتھ کلمات کفر بھی کہتا ہے یا کسی بت کو سجدہ کرتا ہے، یا اسلام کے کسی ایسے حکم کا انکار کرتا ہے جس کا اسلامی حکم ہونا قطعی اور بدیہی ہے، یا کافروں کے کسی مذہبی شعار کو اختیار کرتا ہے جیسے گلے میں زنّار وغیرہ ڈالنا وغیرہ ، وہ بلا شبہ اپنے اعمال کفریہ کے سبب کافر قرار دیا جائے گا۔آیت مذکورہ میں لفظ ’’تَبَیَّنُوْا‘‘ سے اس کی طرف اشارہ موجود ہے، ورنہ یہود و نصاریٰ تو سب ہی اپنے آپ کو مؤمن مسلمان کہتے تھے، اور مسیلمہ کذاب جس کو باجماع صحابہ کافر قرار دے کرقتل کیا گیا وہ تو صرف کلمۂ اسلام کا اقرار ہی نہیں بلکہ اسلامی شعائر نماز ، اذان وغیرہ کا بھی پابند تھا، اپنی اذان میں ’’أشہد أن لا ألہ إلا اﷲ‘‘ کے ساتھ ’’أشہد أن محمدا رسول اﷲ‘‘ بھی کہلواتا تھامگر اس کے ساتھ وہ اپنے آپ کو بھی نبی و رسول صاحب وحی کہتا تھا، جو نصوص قرآن و سنت کا کھلا ہوا انکار تھا، اسی کی بنا پر اس کو مرتد قرار دیا گیا ، اور اس کے خلاف باجماع صحابہ جہاد کیا گیا۔ خلاصہ مسئلہ کا یہ ہوگیا کہ ہر کلمہ گو اہل قبلہ کو مسلمان سمجھو اس کے باطن اور قلب میں کیا ہے، اس کی تفتیش انسان کا کام نہیں اس کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرو، البتہ اظہار ایمان کے ساتھ خلاف ایمان کو ئی بات سرزد ہو تو اس کو مرتد سمجھو، بشرطیکہ اس کا خلاف ایمان ہونا قطعی اور یقینی ہو، اور اس میں کوئی دوسرے احتمال یا تاویل کی راہ نہ ہو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لفظ ’’کلمہ گو‘‘ یا ’’اہل قبلہ‘‘ یہ اصطلاحی الفاظ ہیں ، جن کا مصداق صرف وہ شخص ہے جو مدعی اسلام ہونے کے بعد کسی کافرانہ قول و فعل کا مرتکب نہ ہو۔ (معارف القرآن ۲؍۱۷۳، سورہ نساء پ۵)