دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
علیہ السلام لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں وہ جو ابراہیم علیہ السلام لے کر آئے، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا اسلام وہ تھا جو الواحِ توراۃ اور موسوی تعلیمات کی صورت میں آیا، اور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا اسلام وہ جو انجیل اور عیسوی ارشادات کے رنگ میں نازل ہوا، اور آخر میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا اسلام وہ ہوگا جو قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے نقشہ پر مرتب ہوا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ہر نبی کے زمانہ میں ان کا لایا ہوا دین ہی دین اسلام اور عند اللہ مقبول تھا، جو بعد میں یکے بعد دیگرے منسوخ ہوتا چلا آیا، آخرمیں خاتم الانبیاء کا دین دین اسلام کہلایا جو قیامت تک باقی رہے گا۔ اور اگر اسلام کے دوسرے معنی لیے جائیں یعنی وہ شریعت جو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے تو آیت کا مفہوم یہ ہوجاتا ہے کہ اس زمانہ میں صرف وہی اسلام مقبول ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہے، پچھلے ادیان کو بھی اگر چہ ان کے اوقات میں اسلام کہا جاتا تھا، مگر اب وہ منسوخ ہوچکے ہیں ، اور دونوں صورتوں میں نتیجۂ کلام ایک ہی ہے کہ ہر پیغمبرکے زمانہ میں اللہ کے نزدیک مقبول دین وہ اسلام ہے جو اس پیغمبر کی وحی اور تعلیمات کے مطابق ہو، اس کے سوا دوسرا کوئی دین مقبول نہیں ، خواہ وہ پچھلی منسوخ شدہ شریعت ہی ہو، اگلے زمانہ کے لیے وہ اسلام کہلانے کی مستحق نہیں ، شریعت ابراہیم علیہ السلام ان کے زمانہ میں اسلام تھی، موسی علیہ السلام کے زمانہ میں اس شریعت کے جو احکام منسوخ ہوگئے وہ اب اسلام نہیں رہے، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں شریعت موسویہ کا اگر کوئی حکم منسوخ ہوا ہے تو وہ اب اسلام نہیں ، ٹھیک اسی طرح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شرائع سابقہ کے جواحکام منسوخ ہوگئے، وہ اب اسلام نہیں رہے اس لیے جو امت قرآن کی مخاطب ہے اس کے لیے اسلام کے معنی عام لیے جائیں یا خاص دونوں کا حاصل یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے