دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اور لفظ ’’اسلام‘‘ کے اصلی معنی ہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا اور اس کے تابع فرمان ہونا، اس معنی کے اعتبار سے ہر نبی ورسول کے زمانہ میں جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کے لائے ہوئے احکام میں ان کی فرمانبرداری کی وہ سب مسلمان اور مسلم کہلانے کے مستحق تھے، اور ان کا دین دین اسلام تھا، اسی معنی کے لحاظ سے حضرت نوح علیہ ا لسلام نے فرمایا: وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (سورۂ یونس:۷۲)۔ اور اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آپ کو اور اپنی امت کو امت مسلمہ فرمایا: ’’رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّْتِنَا اُمَّۃً مُسْلِمَۃً لَکَ‘‘۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریین نے اسی معنی کے اعتبار سے کہا تھا : ’’وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُونَ‘‘ (آل عمران:۵۲) اور بعض اوقات یہ لفظ خصوصیت سے اس دین و شریعت کے لیے بولا جاتا ہے جو سب سے آخر میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ اور جس نے پچھلی تمام شرائع کو منسوخ کردیا اور جو قیامت تک باقی رہے گا، اس معنی کے اعتبار سے یہ لفظ صرف دین محمدی اور امت محمدیہ کے لیے مخصوص ہوجاتاہے ، جبرئیل علیہ السلام کی ایک حدیث جو تمام کتبِ حدیث میں مشہور ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی یہی خاص تفسیر بیان فرمائی ہے، آیت مذکورہ کے لفظ ’’الاسلام‘‘ میں بھی دونوں معنی کا احتمال ہے، پہلے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول دین صرف دین اسلام ہے یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تابع بنانا اورہر زمانہ میں جو رسول آئے اور وہ جو کچھ احکام لائے اس پر ایمان لانا اور اس کی تعمیل کرنا اس میں دین محمدی کی اگر چہ تخصیص نہیں لیکن عام قاعدہ کے ماتحت حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد ان پر اور ان کے لائے ہوئے تمام احکام پرا یمان وعمل بھی اس میں داخل ہوجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ نوح علیہ السلام کے زمانہ میں دین مقبول وہ تھا جو نوح