دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور اس کے نتیجہ میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو گالی دے تو اس گالی دینے والے کا سبب یہ بیٹا بنا، تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود گالی دی۔ اسی معاملہ کی ایک دوسری مثال عہد رسالت میں پیش آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ بیت اللہ شریف زمانۂ جاہلیت کے کسی حادثہ میں منہدم ہوگیا تھا، تو قریش مکہ نے بعثت نبوت سے پہلے اس کی تعمیر کرائی، اس تعمیر میں چند چیزیں بناء ابراہیم کے خلاف ہوگئیں ایک تو یہ کہ جس حصہ کو حطیم کہا جاتا ہے یہ بھی بیت اللہ کا جز ہے، تعمیر میں اس کو سرمایہ کم ہونے کی بنا پر چھوڑدیا۔ دوسرے بیت اللہ شریف کے دو دروازے شرقی اور غربی تھے، ایک داخل ہونے کے لیے دوسرا باہر نکلنے کے لیے اہل جاہلیت نے غربی دروازہ بند کرکے صرف ایک کردیا اور وہ بھی سطح زمین سے بلند کردیا تاکہ بیت اللہ شریف میں دخول صرف ان کی مرضی واجازت سے ہوسکے، ہر شخص بے محابا نہ جاسکے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ بیت اللہ کی موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے حضرت خلیل ا للہ علیہ الصلوۃ والسلام کی تعمیر کے بالکل مطابق بنادوں مگر خطرہ یہ ہے کہ تمہاری قوم یعنی عام عرب ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں ، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے کہیں ان کے دل میں کچھ شبہات نہ پیدا ہوجائیں ، اس لیے میں نے اپنے ارادہ کو ترک کردیا، ظاہر ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کو بناء ابراہیمی کے مطابق بنانا، ایک طاعت اور کار ثواب تھا مگر اس پر لوگوں کی ناواقفیت کے سبب ایک خطرہ کا ترتب دیکھ کر آپ نے اس ارادہ کو ترک فرمادیا۔ اس واقعہ سے بھی یہی اصول مستفاد ہوا کہ اگر کسی جائز بلکہ ثواب کے کام پر کوئی مفسدہ لازم آتا ہے تو وہ جائز کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے۔ (معارف القرآن ۳؍۴۲۱،سورۂ انعام پ۷)