دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
والإجماع والقیاس (إلی أن قال) وشرطہ أنہ لابدّ لہ ان یعرف من الکتاب والسنۃ ما یتعلق بالأحکام ومواقع الإجماع وشرائط القیاس وکیفیۃ النظر وعلم العربیۃ والناسخ والمنسوخ وحال الرواۃ ولا حـاجـــۃ إلی الکلام والفقہ۔ (ثم قال) ولا بأس أن یورد کلام البغوی فی ہذا الموضع قال البغوی والمجتہد من جمع خمسۃ أنواع من العلم علم کتاب اللہ عزوجل وعلم سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعلم أقاویل علماء السلف من ٔجماعہم واختلافہم وعلم اللغۃ وعلم القیاس وہو طریق استنباط الحکم عن الکتاب والسنۃ إذا لم یجدہ فرعی کو ان کی تفصیلی دلیلوں سے جن کی کلیات کا مآ ل چار قسم پر ہے یعنی کتاب اور سنت اورا جماع اور قیاس پر۔ اور اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ اجتہاد والے کو ضروری ہے کہ قرآن و حدیث اس قدر جانتا ہو کہ جو احکام سے متعلق ہے اور اجماع کے موقعوں اور قیاس صحیح کی شرطوں اور نظر کی کیفیت اور علم عربیت اور ناسخ اور منسوخ اور راویوں کے حال سے واقف ہو اور اجتہاد میں علم کلام اور جو ہم نے اجتہاد کی شرط ذکر کی ہے اصول کی کتابوں میں مشروح موجود ہے، اور کچھ مضائقہ نہیں کہ بغوی کا قول اس مقام میں یعنی بیان شرط اجتہاد میں ذکر کیا جائے، بغوی نے کہا ہے کہ مجتہد وہ عالم ہے کہ پانچ طرح کے علم کا حاوی ہو۔ اول علم کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کا، دوم علم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سوم علم علماء سلف کے اقوال کا کہ ان کااتفاق کس قول پر ہے اور اختلاف کس قول میں ۔ چہارم علم لغۃ عربی کا۔ پنجم علم قیاس کا اور قیاس طریقہحکم کے