دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کتاب اللہ ہمارے لیے کافی ہے، جیسے وہ اللہ کی کتاب سمجھتے ہیں ہم بھی سمجھ سکتے ہیں ’’ہم رجال ونحن رجال‘‘ یعنی وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہوسناک جو نہ عربی زبان سے واقف ہے نہ قرآن کے حقائق و معارف نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان و تفسیر سے۔ محض قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قرآن کا عالم کہنے لگا۔ قرآن کریم کی جو تفسیر و تشریح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے بلاواسطہ شاگرد یعنی صحابہ کرام سے منقول ہے، اس سب سے قطع نظر جو بات ذہن مین آگئی اس کو قرآن کے سرتھوپ دیا۔ حالانکہ اگر صرف کتاب بغیر معلم کے کافی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت تھی کہ کتاب کے نسخے لکھے لکھائے لوگوں کو پہنچادیتے، رسول کو معلم بنا کر بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بات صرف کتاب اللہ کے ساتھ مخصوص نہیں کسی بھی علم وفن کی کتاب کا محض ترجمہ دیکھ کر کبھی کوئی شخص اس فن کا عالم نہیں بن سکتا۔ ڈاکٹری یا طب یونانی کی کتابوں کا ترجمہ دیکھ کر آج تک کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں بنا، انجینئری کی کتابیں دیکھ کر کوئی انجینئر نہیں بنا، کپڑا سینے یا کھانا پکانے کی کتابیں دیکھ کر کوئی درزی یا باورچی نہیں بنا، بلکہ ان سب چیزوں میں تعلیم و تعلم اور معلم کی ضروت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ مگر افسوس کہ قرآن وسنت ہی کو ایسا سرسری سمجھ لیا گیا ہے کہ اس کے لیے کسی معلم کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ چنانچہ ایک بہت بڑی تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت اس طرف غلو میں بہہ گئی کہ صرف قرآن کے مطالعہ کو کافی سمجھ بیٹھے۔ علمائے سلف کی تفسیروں وتعبیروں کو اور ان کی اقتداء و اتباع کو سرے سے نظر انداز کردیا۔ دوسری طرف ایک بھاری جماعت مسلمانوں کی اس غلو میں مبتلا ہوگئی کہ اندھا دھند جس کو چاہا اپنا مقتداء و پیشوا بنا لیا، پھر ان کی اندھی تقلید شروع کردی، نہ یہ معلوم کہ جس کو ہم مقتداء اور پیشوا بنارہے ہیں یہ علم وعمل اور اصلاح و تقویٰ کے معیار پر صحیح بھی