دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
میں باہمی اختلاف ہورہا تھا حضرت فاروق اعظمؓ نے سنا تو غضبناک ہوکر باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ افسوس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں ایسے دو شخص باہم جھگڑ رہے ہیں جن کی طرف لوگوں کی نظریں ہیں ، اور جن سے لوگ دین کا استفادہ کرتے ہیں ، پھر ان دونوں کے اختلاف کا فیصلہ اس طرح فرمایا کہ: صدق أبی ولم یال ابن مسعود یعنی صحیح بات تو ابی ابن کعب کی ہے مگر اجتہاد میں کوتاہی ابن مسعود نے بھی نہیں کی۔ پھر فرمایا کہ مگر میں آئندہ ایسے مسائل میں جھگڑا کرتا ہوا کسی کو نہ دیکھوں ، ورنہ اتنی سزادوں گا ۔ (جامع العلم ۲؍۸۴) حضرت فاروق اعظمؓ کے اس ارشاد سے ایک تو یہ بات ثابت ہوئی کہ اجتہادی مسائل و اختلافات میں ایک قول صواب و صحیح ہوتا ہے اور دوسرا اگر چہ صواب نہیں مگر ملامت اس پر بھی نہیں کی جاسکتی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایسے اجتہادی مسائل میں خلاف و اختلاف پر زیادہ زور دینا مقتدیانِ اہل علم کے لیے مناسب نہیں جس سے ایک دوسرے پر ملامت یا نزاع و جدال کے خطرات پیدا ہوجائیں ۔ امام شافعیؒ کے ایک مفصل کلام کو نقل کرکے ابن عبد البرؒ نے فرمایا کہ امام شافعیؒ کے اس کلام میں اس کی دلیل موجود ہے کہ مجتہدین کو آپس میں ایک دوسرے کا تخطیہ نہ کرنا چاہئے، یعنی ان میں کوئی دوسرے کو یہ نہ کہے کہ آپ غلطی اور خطا پر ہیں ۔ (جامع العلم ۲؍۷۳) وجہ یہ ہے کہ ایسے اجتہادی مسائل میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے قول کو یقینی طور پر صواب و صحیح اور دوسرے کے قول کو یقینی طور پر خطا و غلط کہہ سکے، اجتہاد اور پورے غور و فکر کے بعد بھی جو رائے قائم کی ہے اس کے متعلق اس سے زیادہ کہنے کا کسی کو حق نہیں کہ رائے صحیح و صواب ہے مگر احتمال خطا اور غلطی کا بھی ہے اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے کا قول صحیح و صواب ہو۔