دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ومن جملۃ ائمۃ المسلمین ائمۃ الإجتہاد، وتقع النصیحۃ لہم ببثِ علومہم ونشر مناقبہم وتحسین الظن بہم۔ (فتح الباری ۱؍۱۸۴، فتح الملہم ۲؍۱۵) یعنی ائمۃ المسلمین کے ساتھ خیر خواہی میں ائمۂ مجتہدین بھی شامل ہیں اور ائمہ مجتہدین کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ ان کے مدون کردہ علوم کو عام کیا جائے، ان کے فضائل ومناقب کو پھیلایا جائے اور ان کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے۔ لہٰذا ایسے حالات اور ایسے ماحول میں جب کہ امام ابو حنیفہؒ یا ائمہ مجتہدین میں سے کسی امام پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جارہے ہوں ، ان کی شخصیت کو مجروح ان کے مدوّن کردہ فقہ اور ان کے مسلک کو غیر معتمد کہا جارہا ہو اور ان کے خلاف فضا بنائی جارہی ہو ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب اور حافظ ابن حجرؒ کی تشریح کے مطابق ضروری ہوگا کہ امام و مجتہد کے فضائل و مناقب بیان کئے جائیں ، ان کے علوم کی حفاظت کی جائے، ان کو عام کیا جائے، اور ائمہ مجتہدین کی حمایت میں مخالفین و معترضین کو جواب دیا جائے، اور یہ سارا کام محض للہیت اور اخلاص کے ساتھ حدیث پاک پر عمل کرنے کے جذبہ سے کیا جائے تو یقینا یہ جد وجہد بھی رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ باعث اجر وثواب ہوگی۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حمی مومنا من منافق بعث اﷲ ملکا یحمی لحمہ یوم القیامۃ من نار جہنم، ومن رمی مسلماً بشی یرید شینہ بہ حسبہُ اﷲ علی جسر جہنم حتی یخرج مما قال۔ (ابو داؤد شریف کتاب الادب باب الرجل یذب عن عرض اخیہ ص۶۶۹) جو کسی مومن کی کسی منافق (بد گو) کی بدزبانی سے حفاظت اور اس کی حمایت کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک فرشتہ مقرر کرے گا جو اس کے جسم کی نار جہنم سے حفاظت کرے گا اور جو کسی مسلمان کو عیب لگائے گا، نکتہ چینی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اس کی وجہ سے جہنم کے پل پر روک دے گا جب تک کہ اپنے کئے اور کہے ہوئے کی سزا نہ بھگت لے۔ نیز ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ما من امرئ یخذل امرأً مسلماً فی موضع ینتہک فیہ حرمتہ وینتقص فیہ