دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
بحث بھی کی ہے کہ ہر مجتہد ہمیشہ مصیب ہی ہوتا ہے اور دو متضاد اجتہاد ہوں تو دونوں کو حق سمجھا جائے گا، یا ان میں سے ایک فیصلہ کو خطاء اور غلط قرار دیا جائے گا؟ اس میں قدیم زمانہ سے علماء کے مختلف اقوال ہیں ، آیت مذکورہ سے دونوں جماعتوں نے استدلال کیا ہے، جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ دونوں اجتہاد حق ہیں ، اگر چہ متضاد ہوں ان کا استدلال آیت کے آخری جملے سے ہے جس میں فرمایا: ’’وَکُلًّا آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا‘‘ اس میں حضرت داؤد علیہ السلام پر کوئی عتاب نہیں ہے نہ ان کو یہ کہا گیا کہ ان سے غلطی ہوگئی، اس سے معلوم ہوا کہ داؤد علیہ السلام کا فیصلہ بھی حق تھا اور سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ بھی۔ البتہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلہ کو فریقین کے اصلح ہونے کی بنا پر ترجیح دے دی گئی۔ اور جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اختلاف اجتہادی کے مواقع میں حق ایک طرف ہوتا ہے دوسرا غلط ہوتا ہے ان کا استدلال اسی آیت کے پہلے جملہ یعنی ففہمنہا سلیمان سے ہے کہ اس میں تخصیص کرکے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو حق فیصلہ سمجھادیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ داؤد علیہ السلام کا فیصلہ حق نہ تھا گو وہ بوجہ اپنے اجتہاد کے اس میں معذور ہوں ، اور ان سے اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہو۔ یہ بحث اصول فقہ کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے آئی ہے وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے اجتہاد کیا اور کوئی حکم دینی اصول اجتہاد کے ماتحت بیان کیا، اگر اس کا اجتہاد صحیح ہوا تو اس کو دو اجر ملیں گے ایک اجر اجتہاد کرنے کی محنت کا، دوسرا اجر جو اصل حکم صحیح تک پہنچنے کا تھا وہ نہ ملے گا۔ (یہ حدیث اکثر مستند کتب حدیث میں منقول ہے)۔ اس حدیث سے اس اختلاف علماء کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ در حقیقت یہ اختلاف ایک نزاع لفظی جیسا ہے کیونکہ حق دونوں طرف ہونے کا حاصل یہ ہے کہ