دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
سنت کے منصوصات اور تصریحات کے اعتبار سے کچھ چیزیں واضح طور پر حرام ہیں ، جیسے سود، شراب، جوا، رشوت وغیرہ، ان میں دورائیں نہیں ہوسکتی اور نہ سلف صالحین کا ان میں کہیں اختلاف ہوسکتا تھا، اور ان میں اختلاف کرنا تو دین کے بینات اور واضح نصوص کا انکار کرنا ہے جو باتفاق امت گمراہی اور الحاد ہے، اور جو ایسا کرے اس سے بیزاری اور برأت کا اعلان کرنا عین تقاضائے ایمان ہے، اس میں رواداری ممنوع ہے۔ یہ رواداری کی تلقین اور اختلاف رائے کے باوجود اپنے مخالف رائے کا احترام صرف ایسے مسائل میں ہے جو یا تو قرآن و سنت میں صراحۃً مذکور نہیں یا مذکور ہیں ، مگر ایسے اجمال و ابہام کے ساتھ کہ ان کی تشریح و تفسیر کے بغیر ان پر عمل نہیں ہوسکتا یا دو آیتوں یا دو رایتوں میں بظاہر کچھ تعارض نظر آتا ہے، ان سب صورتوں میں مجتہد عالم کو قرآن و سنت کے نصوص میں مقدور بھر غور وفکر کرکے یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کا منشا اور مفہوم کیا ہے اور اس سے کیا احکام نکلتے ہیں ، اس صورت میں ممکن ہے کہ ایک عالم مجتہد اصولِ اجتہاد کے مطابق قرآن و سنت اور تعامل صحابہ وغیرہ میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے کے فلاں کام جائز ہے، اور دوسرا عالم مجتہد ان ہی اصولوں میں پورا غور وفکر کرکے اس کے ناجائز ہونے کو صحیح سمجھے، ایسی صورت میں یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر و ثواب کے مستحق ہیں ، کسی پر کوئی عتاب نہیں ، جس کی رائے اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحیح ہے، اس کو دوہرا اجر وثواب اور جس کی صحیح نہیں اس کو ایک اجر ملے گا، اسی سے بعض اہل علم کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اجتہادی اختلافات میں دونوں متضاد قول حق وصحیح ہوتے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہیں تمام احکام عبادات ومعاملات سے اللہ تعالیٰ کا مقصود کوئی خاص کام نہیں ، بلکہ بندوں کی اطاعت شعاری کا امتحان ہے، جب دونوں نے اپنی اپنی غور وفکر اور قوتِ اجتہاد شرائط کے ساتھ خرچ کرلی، تو دونوں اپنا فرض ادا کرچکے، دونوں صحیح جواب ہیں ، مگر جمہور امت اور ائمہ مجتہدین کی تحقیق یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو ان دونوں میں سے کوئی ایک حق و صحیح ہوتا ہے تو جو لوگ اپنے اجتہاد سے اس حق کو