دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن مسائل میں کوئی نص نہ ہو ان کے احکام اجتہاد و قیاس کے اصول پر قرآنی حیثیت سے نکالے جائیں کیونکہ اس آیت میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ مسائل جدیدہ کے حل میں اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ، تو ان کی جانب رجوع کرو، اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو علماء اور فقہاء کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ احکام کو مستنبط کرنے کی صلاحیت تامہ رکھتے ہیں ۔ اس بیان سے چند امور مستفاد ہوئے ہیں ۔ (۱) ایک یہ کہ فقہاء اور علماء کی جانب عدم نص کی صورت میں رجوع کیا جائے گا (۲) دوسرے یہ کہ احکام اللہ کی دو قسمیں ہیں بعض وہ ہیں جو منصوص اور صریح ہیں اور بعض وہ ہیں جو غیر صریح اور مبہم ہیں ، جن کو آیات کی گہرائیوں میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کررکھا ہے۔ (۳) تیسرے یہ کہ علماء کا یہ فریضہ ہے کہ ایسے معانی کو اجتہاد اور قیاس کے ذریعہ استنباط کریں ۔ (۴) چوتھے یہ کہ عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل میں علماء کی تقلید کریں ۔ (احکام القرآن للجصاص) اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ اس آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن سے امن اور خوف کے بارے میں تم خود بخود خبریں نہ اڑاؤ، بلکہ جو اہل علم اور ذی رائے ہیں ان کی طرف رجوع کرو، پھر وہ غور و فکر کرکے جوبات بتائیں اس پر عمل کرو، ظاہر ہے کہ مسائل حوادث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ تو جواب یہ ہے کہ آیت ’’اِذَا جَآئَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ‘‘ میں دشمن کا کوئی ذکر نہیں ہے لہٰذا امن اور خوف عام ہے جس طرح ان کا تعلق دشمن سے ہے اسی طرح مسائل حوادث سے بھی ہے، کیونکہ جب کوئی جدید مسئلہ عامی کے سامنے آتا ہے جس کی حلت اور حرمت کے بارے میں کوئی نص نہیں