روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
نیم جاں بستاند و صدجاں دہد انچہ در و ہمت نیاید آں دہد اس نعمتِ قرب کی لذّت کے سامنے کائنات کے خزانوں پر نگاہ کرنا اپنی توہین معلوم ہو گی جس طرح بازِ شاہی بوجہ قربِ شاہ کے اس قدر عالی حوصلہ ہوجاتا ہے کہ بجز شیرنر کے، ہرن اور چیتوں کے شکار کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ بادشاہ کی نظر اُس کی نگاہ میں غیرت وہمّت کا معیار اس قدر بلند کردیتی ہے کہ یہ جانوروں کے بادشاہ یعنی شیرِِنر پر حملہ کرتا ہے ؎ می نگیرد باز شہ جُز شیر تر کر گساں بر مردگاں بکشادہ نر (اختر) اسی طرح جب مؤمن کی روح مجاہدات اور ریاضات کے ذریعے اور کسی مصاحبِ حق کی صحبت کے فیض سے مصاحب سلطانِ حقیقی ہوجاتی ہے تو بزبانِ حال پکار اٹھتی ہے ؎ رُخِ زرّیں من منگر کہ پائے آہنیں دارم چہ می دانی کہ درباطن چہ شاہ ہمنشیں دارم اے مخاطب! میرے پیلے چہرے کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرنا کہ میں کمزور ہوں بلکہ راہِ حق پر میں لوہے کے پاؤں رکھتا ہوں، تجھے کیا معلوم کہ میرے باطن کو کس سلطان السلاطین اور احکم الحاکمین کی معیتِ خاصّہ حاصل ہے۔ پس یہ مبارک اور خوش بخت جانِ عارف مصاحبِ حق مثل بادشاہی کے ہے کہ ساری کائنات ولذات مافیہا سے اپنی نگاہ پرواز کو قطع نظر کرتی ہوئی عرشِ اعظم اور صاحبِ عرشِ اعظم سے رابطہ قائم رکھتی ہے اور اس کی نگاہوں میں تمام ماسوی اللہ ناقابلِ التفات اور بے قدر ہوجاتے ہیں ؎ روحِ او سیمرغ بس عالی طواف ظلِّ او اندر زمین چوں کوہ ِقاف عارف کی روح عرش پاک کا طواف کرتی ہوتی ہے اور جسم اس کا دنیا کیزمین پر مثل پہاڑ پڑا ہوتا ہے ۔