روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
کی اس علامتِ تواضع سے اس کے صاحب ِنسبت ہونے کا پتاچلتا ہے۔ جو جس قدر قوی نسبت پر فائز ہوتا ہے اتناہی قوی فنائیت اور عبدیتِ کاملہ کا اس میں ظہور ہوتا ہے۔ دوسری علامت عشاقِ حق کی یہ ہے کہ وہ ان کی راہ کی تکلیف کو خوشی خوشی جھیلتے ہیں۔ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ؎ (سورۂیوسف) کی آیت اس مجاہدے کی لذّت پر دلالت کرتی ہے۔ جن کی راہ کے قید خانے محبوب بلکہ اَحَبّ ہوتے ہیں ان کی راہ کے گلستان کیسے ہوں گے۔ تمام کائنات کے پھول انفراداً یا اجتماعاً اگر حق تعالیٰ کے راستے کی کُلفت کے لیے سلام کریں تو بھی اس کانٹے کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس کو نسبت طریق اور راہِ حق سے ہے، کلفت کا احساس تو تب ہوتا ہے جب اُلفت نہ ہو اور یہاں تو محبت منصوص کا ذکر ہے اور پھر جس محبت کا آغاز خود حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے ہو یُحِبُّہُمْ پھر بتایئے کہ جس سے حق تعالیٰ محبت فرمائیں اس کی حیات کا کیا عالَم ہوگا۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ؎ ترجمہ: ان کے لیے تو دو جنّت ہیں۔ حضرت ملّاعلی قاری رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں: وَقَالَ بَعْضُ الْعَارِفِیْنَ: جَنَّۃٌ فِی الدُّنْیَا وَجَنَّۃٌ فِی الْعُقْبٰی ؎ ترجمہ: اللہ والوں کے لیے ایک جنّت دنیا ہی میں عطا ہوتی ہے اور ایک آخرت میں عطا ہوگی۔ دنیاکی جنّت سے مراد حیاتِ طیبّہ ہے جس کا ترجمہ حضرت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے بالُطف زندگی سے فرمایا ہے۔ مرقاۃ کی یہ عبارت حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃاﷲ علیہ کے اس شعر کی تائید کررہی ہے جس میں اللہ والوں کی حیات کا نقشہ کھینچا ہے ؎ میں دن رات رہتا ہوں جنّت میں گویا میرے باغِ دل میں وہ گل کاریاں ہیں ------------------------------