روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
کثرت سے حکم کرنے والا ہے۔ امّارہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اور الف لام سوء پر جنس کا داخل ہے جس سے بُرائی کے جملہ انواع کفر، شرک، بدعت، کبائر، صغائر اور جملہ فواحش شامل ہوگئے کیوں کہ جنس اسی کلی کا نام ہے جو انواع مختلف الحقائق کو محیط اور جامع ہو اِلَّامَارَحِمَ رَبِّیْ ما کو مصدریہ بتاکر صیغۂماضی رحم کو مصدر کے معنیٰ میں تبدیل کردیا یعنی رحم رحمت ہوگیا اور ما کو ظرفیہ زمانیہ بتاکر تفسیر یوں کی کہ نفس ہر وقت بُرائی کا حکم کرتا ہے اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے اِلَّافِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ مگر اس وقت تک جب تک کہ حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت اور حفاظت میں ہو تو نفس کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی حقیقت کو حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس شعر میں ظاہر فرمایا ہے ؎ گر ہزاراں دام باشد بر قدم چوں تو بامائی نباشد ہیچ غم اگر ہزاروں گناہوں کے جال ہمارے قدم پر ہوں لیکن اے خدا! اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں یعنی آپ کی عنایت شاملِ حال ہے تو ہم کو کوئی غم نہیں بقول مشہور: جس کو خدا رکھے اس کو کون چکھے رَبِّ اغۡفِرۡ وَارۡحَمۡ وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ؎ کی کثرت کرتے ہوئے یہ بھی مضمون مستحضرر ہے کہ مغفرت کے بعد رحمت کو طلب کرنا کیوں سکھایا گیا تو اس میں یہ راز بھی ہے کہ ماضی کے گناہ تو بخش دیجیے اور مستقبل کے گناہوں سے حفاظت کے لیےہم کو رحمت کے سایہ میں رکھیےیعنی اِلَّامَارَحِمَ رَبِّیْکی تفسیر کو یہاں جوڑ دیجیے۔ پس حق تعالیٰ کی رحمت اور نصرت اور عصمت اور حفاظت کے ہوتے ہوئےنفس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ شیطان کا خوف بھی اسی طرح بے معنیٰ ہے، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا؎ شیطان کے مکر اور کید کو حق تعالیٰ ہی نے ضعیف اور کمزور فرمایا ہے۔ ملّاعلی قاری ------------------------------