روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
میں نہ ہوتکلیف مالایطاق ہے جس سے اس کی ذات بَری ہے، جس کی شہادت یہ آیتِ کریمہ دے رہی ہے:لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا؎ اللہ تعالیٰ کسی متنفِس پر اس کی قدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ معلوم ہوا کہ ہر دور اور ہر عہد میں باصِدق وباصفا مشایخ کا ہونا لازمی ہے، تاکہ لوگوں کو ان کی صحبت ومعیت کا شرف حاصل ہوتا رہے، جس سے اللہ کی یاد آئے، دنیا کی محبت کم ہو اور آخرت کی فکر بڑھے، کوئی ان مشایخ اور بزرگوں کو نہ جانے اور پہچانےتو اس کی یہ کورنگاہی ہے اور طبیعت کی سہل انگاری کا کرشمہ ہے اس میں قانونِ قدرت کا کوئی قصور نہیں۔ فرمایاکہ دیکھیے: آج کوئی مریض ہوتا ہے تو وہ کسی ڈاکٹر اور حکیم کے پاس علاج کے لیے ضرور جاتا ہے، ایسے مریض کے لیے کبھی یہ کہتے ہوئے نہیں سُنا گیا کہ آج کل کے ڈاکٹر اور حکیم اچھے نہیں ہیں۔ اس لیے مجھے اپنی حالت میں رہنے دو، میں علاج نہیں کراتا، ہاں حکیم اجمل خان اپنی قبر سے باہر آئیں گے تو ان سے علاج کراؤں گا۔ تو جب لوگ اپنے امراضِ جسمانی میں اسی زمانے کے حکمائے جسمانی کی طرف رجوع ہوتے ہیں اور شفا پاتے ہیں، تو کیا اپنے امراضِ روحانی میں اس دور کے حکمائے روحانی سے ربط وتعلق پیدا کرکے ان امراض سے نجات نہیں پائیں گے؟ یقیناً پائیں گے، اگر لوگوں کے اندر اس کی فکر ہواور مرض کا احساس ہو، اور یہ خیال ہوکہ روح کی بیماری جسم کی بیماری سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ فرمایاکہآپ کے ہندوستان میں شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب مولانا قاری محمد طیب صاحب، مولانا شاہ ابرار الحق صاحب، مولانا مسیح اللہ خان صاحب، مولانا سیدابوالحسن علی ندوی صاحب، مولانا محمد منظور نعمانی صاحب، مولانا محمداحمد صاحب پھولپوری، یہ سب حکمائے روحانی ہیں ان میں سے جس کسی کے پاس آپ نیاز مندانہ حاضر ہوں گے آپ کی بیمار روح ان شاء اللہ شفا پائے گی، اور وہ سکون ملے گا جسے آپ دنیا کی ساری دولت بھی خرچ کرکے حاصل نہیں کرسکتے۔ ------------------------------