روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کنجی کے دندانے کو بھی درست رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ دل کا قفل آسانی سے کھلے، کوئی مشکل اور دشواری پیش نہ آئے۔ اور ذکر کی کنجی کے دندانے کو درست رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ذکر، فکرو توبہ کو خشوع وخضوع کے ساتھ کیا جائے۔ ایسے ہی ذکر کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذکر کی کنجی کی جو بات میں نے کہی ہے وہ اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اس کی دلیل حدیث میں موجود ہے، ارشاد ہے: اَللّٰھُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ ؎ یعنی اے اللہ! ہمارے دلوں کے تالوں کو کھول دے اپنے ذکر کے ذریعے۔ فرمایاکہ ذکر میں صرف کمیت یعنی مقدار وتعداد مطلوب نہیں ہے بلکہ کیفیت بھی مقصود ہے، یعنی اللہ کا خیال اور دھیان جس قدر ذکر میں جمایا جائے گا اسی قدر ذاکر کو نفع اور فائدہ ہوگا۔ اور اتنی ہی اس کے اندر طاقت وقوت پیدا ہوگی۔ دیکھیے لومڑی کس قدر بزدل اور ڈرپوک ہے لیکن شیر اگر اس کی پشت پر ہاتھ پھیردے اور یہ کہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تو اس وقت لومڑی چیتے کا جگر بھی نکال سکتی ہے۔ اور اس کے لیے اس کے اندر ہمت پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ذاکر کے ساتھ اللہ کی مدد ونصرت ہوتی ہے اور کسی حال میں تنہائی محسوس نہیں کرتا بلکہ نورِ ذکر کی برکت سے ذاکر اپنے قلب میں حق تعالیٰ کا خاص تعلق محسوس کرتا ہے جس کو مشایخ معیتِ خاصہ کہتے ہیں، معیتِ عامہ تو ہر مسلمان کو حاصل ہے۔ فرمایاکہعلّامہ سیدسلیمان ندوی رحمۃاﷲ علیہ کا ایک شعر ذکر کے سلسلے میں بڑا حقیقت آفریں اور حلاوت آمیز ہے ؎ نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا ذکر میں تاثیرِ دورِ جام ہے ------------------------------