روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
سے کسی تصنع اور تکلف کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ عام واعظوں کی طرح اپنے سامعین کو ان کے خیالات کی وادی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ کر خود بڑھے ہوئے نہیں چلے جاتے ہیں، بلکہ شروع سے آخر تک اپنی دِل رُبا مسکراہٹ اور مؤثر واقعات، دِلوں کو چھولینے والے اشعار اور قرآن وحدیث کی دِل نشین تشریح وتوضیح کے ساتھ انہیں اپناشریکِ سفر بنائے رکھتے ہیں۔ یہ اپنی مجلس میں مولانا روم کے ’’باغِ مثنوی‘‘ کی سیرجی بھرکر کراتے ہیں جس سے دل کو تازگی اور روح کو بالیدگی ملتی ہے اور غفلت دور ہوکرحضوری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ آج ( ۲۹؍ربیع الثانی ۱۳۹۷ھ) صبح مدرسہ فیض العلوم باقر باغ سعیدآباد حیدرآباد میں حضرت حکیم صاحب کی مجلس مقرر تھی۔ کافی لوگ شریک تھے جن میں اہلِ مدارس کی تعداد زیادہ تھی گویہ راقم الحروف کی حاضری قدرے تاخیر سے ہوئی۔ مگر جتنی باتیں سنیں ان میں سے ہر بات دل سے نکل کر دل تک پہنچ رہی تھی گویا دل کو دل سے کوئی رسم وراہ ہو۔ آیئے زمین کے اس چاند تارے کی بزم سے آپ بھی کچھ استفادہ کیجیے۔ منبر پر وہ کیا برسائیں گے فرمایاکہ ایک عالم اور ایک واعظ کو عمل کا پابند ہونا چاہیے، بغیر عمل کے صرف قول مفید اور مؤثر نہیں ہوتا۔ صاحبِ قصیدہ بردہ نے تو قول بلاعمل سے مغفرت طلب کی ہے، الفاظ ان کے یہ ہیں:اَسْتَغْفِرُ اللہَ مِنْ قَوْلٍ بِلَا عَمَلٍ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے اس قول سے پناہ چاہتا ہوں جو بغیر عمل کے ہو۔ ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک صاحب ان کے پاس اپنے لڑکے کو لے کر آئے۔ کہنے لگے:’’حضرت! یہ گڑ بہت کھاتا ہے ،ہزار سمجھایا مگر ایک بات بھی اس نے مان کر نہ دی، میں پریشان ہوں کہ اسے اس عمل سے کس طرح روکوں؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کثرت سے اگر یہ گڑ کھاتا رہے تو جگر خراب ہوجائے گا آپ دعا فرمائیے اور کچھ زبان مبارک سے نصیحت بھی فرمادیجیے۔‘‘ بزرگ نے جواب میں فرمایا: آپ کل تشریف لایئے۔ وہ آئے تو انہوں نے لڑکے کو نصیحت فرمائی اور دعا بھی کی۔ جب لڑکے کے والد جانے لگے تو پوچھا! حضرت!