روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
جو قبر کہن اُن کی اُکھڑی تو دیکھا نہ عضوِ بدن تھا نہ تارِ کفن تھا (نذیر اکبر آبادی) آکر قضا باہوش کو بے ہوش کرگئی ہنگامۂ حیات کو خاموش کر گئی (اختر) دُنیا اور آخرت کا امتزاج اور ارتباط کا فلسفہ حضرت عارف رومی رحمۃاﷲ علیہ متکلم اُمت نے یوں حل فرمایا ہے ؎ آب اندر زیر کشتی پُشتی است آب در کشتی ہلاک کشتی است دُنیاکی مثال پانی سے اور آخرت کی مثال کشتی سے دی ہے کہ جس طرح پانی کے بغیر کشتی چل نہیں سکتی مگر شرط یہ ہے کہ یہ پانی نیچے رہے کشتی میں داخل نہ ہو اگر پانی اندر داخل ہوا تو یہی کشتی کی ہلاکت کا بھی سبب ہوگا جو نیچے روانی کا سبب تھا۔ ٹھیک اِسی طرح دُنیا اگر دل کے باہر ہو اور دل میں حق تعالیٰ کی محبت غالب ہو یعنی نعمت کی محبت سے نعمت دینے والے کی محبت غالب ہو تو آخرت کی کشتی ٹھیک چلتی ہے اور اِسی دُنیا سے دین کی خوب تیاری ہوتی ہے، اور اگر دُنیا کی محبت کا پانی دل کے اندر گھس گیا یعنی آخرت کی کشتی میں دُنیا کا پانی داخل ہوگیا تو پھر دونوں جہاں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ دُنیا کا نفع اور سکون بھی چھن جاوے گا جس طرح کشتی کے غرق ہوتے وقت پھر وہ پانی کشتی کے لیے باعثِ سکون ہونے کے بجائے باعثِ ہراس و تباہی ہوجاتا ہے، پس نافرمان انسان کے پاس یہ دُنیا سببِ نافرمانی بن جاتی ہے اور اﷲ والوں کے پاس یہ دُنیا فرماں برداری میں صرف ہوتی ہے اور باعثِ سکون و چین ہوتی ہے۔ تعجب ہے کہ دُنیا کا پیدا کرنے والا تو دُنیا کو قرآن میں دَارُالغرور (دھوکےکا گھر) فرمائے اور ہم مخلوق ہوکر اِس دھوکے کے گھر سے دل لگائے بیٹھے ہیں۔ حق تعالیٰ نے دُنیا کی