اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
مبتلا ہے، بالآخر قرآنِ کریم کی صریح اور دو ٹوک آیات کے ذریعہ ام المؤمنین کی برا ء ت اور ریشہ دوانی میں مصروف دشمنوں کی سازش کا مکمل بیان نازل ہوتا ہے، یہ پوری داستانِ دل خراش خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی زبانی بھی بیان کی ہے، اور صحیح بخاری سمیت متعدد کتب احادیث میں یہ آپ بیتی مذکور ہے، جس کا ہرہر لفظ اور جملہ ہر تصنع اور بناوٹ سے دور اور سچے کرب والم کے برجستہ اور بے ساختہ اظہار پر مشتمل ہے، اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے گناہ کا قصۂ درد اور داستانِ الم ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ یہ بے بنیاد الزام جس مقدس خاتون پر لگایا گیا تھا وہ کوئی عام اور گم نام خاتون نہیں ؛ بلکہ معاشرے کی معروف وممتاز خاتون تھیں ، جن کی زندگی عفت کی شاہ کار اور حیا کی آئینہ دار تھی، جن کے بارے میں روز وشب کی رفیق خادمہ نے، سوکنوں نے، اپنوں اور بے گانوں نے خیر کے کلمے کے سوا کچھ نہ کہا، جب اتنی مقدس خاتون اور حرم رسول کے خلاف یہ طوفانِ شر برپا کیا جاسکتا ہے تو پھر مسلم سماج کی عام خواتین کس شمار وقطار میں ہیں ؟ کیا یہ طوفان ہر مسلم خاتون کے لئے درس عبرت نہیں ہے کہ انہیں کس قدر احتیاط کی اور کس درجہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے؟ واقعۂ افک اور اس کے پس منظر میں نازل ہونے والی آیات امت کی ان پارسا خواتین کے لئے صبر وتسکین کا بہت بڑا سہارا ہیں جن پر شرپسندوں کی طرف سے تہمتیں عائد کی جاتی ہیں ۔ ان آیات سے یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ اسلامی سماج میں ہر مرد وعورت کا یہ مسلم حق ہے کہ معاشرے کے دیگر افراد ان کے بارے میں حسن ظن رکھیں ، اور حسن ظن کو مجروح کرنے والی کوئی خبر یا بات نہ تو تحقیق کے بغیر قبول کی جائے اور نہ تحقیق سے پہلے غیر جانب داری سے کام لیا جائے؛ بلکہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدافعت کی جائے، اور دوسروں کی آبرو کی حفاظت کاجو فرض از روئے شرع سب پر عائد کیاگیا ہے، اس کی بجاآوری کی جائے،