اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
دیدار نہ کرسکیں گے، تم بھی نہ کرسکتی)‘‘۔ (مسند احمد ۲؍۱۶۸، ابوداؤد: کتاب الجنائز: باب التعزیۃ) اس حدیث سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پردے اور پورے جسم کو چھپانے کا انداز سامنے آتا ہے، ان کے مکمل پردے کی وجہ سے خود ان کے والد گرامی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک اپنی صاحب زادی کو نہ پہچان سکے۔ حضرت صفیہ بنت شیبہ کہتی ہیں کہ: ’’ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر تھے، قریش کی خواتین اور ان کے فضل وکمال کا تذکرہ ہونے لگا، حضرت عائشہ نے فرمایا: بلاشبہ قریش کی خواتین کو فضیلت حاصل ہے، مگر بخدا میں نے انصار کی خواتین سے زیادہ افضل وبرتر، اور آیاتِ قرآنی کی تصدیق اور احکام الٰہی کی تعمیل میں ان سے بڑھ کر کسی کونہیں پایا۔ سورۃ النور میں جب یہ آیت اتری: {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِہِنَّ} (عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اورڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ) یہ آیت خواتین نے اپنے مردوں کی زبانی جیسے ہی سنی، ہر عورت نے اس حکم کی تعمیل میں اس طرح سبقت کی کہ چند لمحوں میں ہر خاتون نے آنچل ڈال لیا اور مسجد میں سیاہ چادروں میں سر سے پیر تک مستور ہوکر حاضر ہونے لگیں ۔ (الدرالمنثور ۶؍۱۸۱) حجاب اور پردے کا حکم آنے کے بعد صحابیات کی صورتِ حال یہی تھی کہ ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر اس حکم پر عمل شروع کردیا، اور بناکسی قیل وقال فوراً اپنے کو مطلوب شرعی پردے کا پابند بنالیا۔پردے کی شرطیں حجاب شرعی کی شرطوں میں مکمل ساتر ہونے، کشادہ ہونے، تنگ نہ ہونے اور باریک نہ ہونے کے ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ ہیجان انگیز نہ ہو، اور اس کا مقصود پردہ ہو، اظہارِ زینت نہ ہو، عورت نقاب وچادر میں مستور ہوکر جب نکلے تو خوشبو لگائے ہوئے نہ ہو، اسی طرح نقاب غیر مسلم عورتوں کی پوشاک سے مشابہت نہ رکھتا ہو، موجودہ رائج نقاب بالعموم حجابِ شرعی کی